کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 123
روایات صحیح نہیں باوجودیکہ ان کا تتبع وتحری امام ابوعوانہ سے بدرجہا فائق ہے۔ (توضیح: ج ۲ ص ۲۶۴) اس عبارت کے بارے میں سمجھا گیا کہ یہ اس عبارت کے معارض ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مؤمل اگر ضعیف ہے تو اس سے ’’امام ابن حبان اور ابوعوانہ اپنی الصحیح میں اس سے روایت نہ لیتے۔‘‘ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ اس کے بعد کی عبارت کو ڈیروی صاحب نے حذف کر دیا جس میں بتلایا گیا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور حافظ ابن کثیر اس کی سند کو حسن ، جید کہتے ہیں۔ اور علامہ ہیثمی اس میں کلام کو مضر قرار نہیں دیتے۔ جس سے مؤمل رحمہ اللہ کے بارے میں واضح ہو جاتا ہے کہ ان متاخرین حضرات کے نزدیک بھی وہ ضعیف نہیں۔ بالخصوص خود امام ابن رحمہ اللہ حبان نے اسے ثقات (ج ۹ ص ۱۸۷) میں ذکر کیا ہے۔ اور فرمایا: ’’ ربما اخطأ‘‘ کہ بعض اوقات وہ خطا کرتا ہے۔ لہٰذاجب وہ ثقہ ہے تو صحیح ابن حبان کا وہ راوی بھی ہے۔ لہٰذا جب وہ ضعیف نہیں تو دونوں میں تعارض کیسا؟
اسی طرح کہا گیا کہ ’’ابوعوانہ میں تو متروک اور کذاب راوی بھی موجود ہیں۔‘‘ (توضیح: ج ۲ ص ۲۶۵) ۔ بلاشبہ یہ درست ہے ۔ ہم نے ان کذاب اور متروک راویوں کا نام بنام بحوالہ ذکر کیا مگر مؤمل کذاب ہے نہ ہی ضعیف۔ یہ سمجھنا کہ جب کذاب راوی ابوعوانہ میں موجود ہیں تو مؤمل کی روایت ابوعوانہ میں ہونی اس کی توثیق کا باعث کیسے، یہ تو تب تھا جب ہمارا سہارا ابوعوانہ پر ہوتا جیسا کہ مولانا صفدر صاحب نے ’’سہل بن بحر‘‘ کے بارے میں محض ابوعوانہ پر اعتماد کیا ہے ۔ ان کے الفاظ ہیں :’’مولانا ظفر احمد لکھتے ہیں کہ سہل بن بحر کا ترجمہ مجھے نہیں مل سکا لیکن کنز العمال میں لکھا ہے کہ صحیح ابوعوانہ کی تمام حدیثیں صحیح ہیں اور تدریب الراوی میں ابوعوانہ کو صحیح کتابوں میں شمار کیا گیا ہے۔الخ (حاشہ احسن: ج ۱ ص ۱۹۱) تضاد کا شکار تو ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم ہیں جو ابوعوانہ کی تمام حدیثیں صحیح تسلیم کرتے ہیں اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’بھلا یہ صحیح ابوعوانہ کے ضعیف راوی کیسے ہو سکتے ہیں؟ (احسن : ج ۱ ص ۱۹۱) مگر مؤمل کو ابوعوانہ کا راوی ہونے کے باوجود ضعیف قرار دیتے ہیں اور سہل کا ترجمہ نہ ملنے پر بھی صرف اس بنا پر قابل اعتماد قرار دے رہے ہیں کہ اس کی روایت صحیح ابوعوانہ میں ہے۔ لہٰذا تضاد ہے تو ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم کے کلام میں ، راقم کے