کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 122
اسی طرح بریلوی مصنف نے ’’ذکر بالجہر‘‘ میں ایک حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس کی سند میں اسامہ رحمہ اللہ بن زید ہے۔ اگر یہ عدوی ہے تب ضعیف اگر لیثی رحمہ اللہ ہے تب بھی ضعیف ہے۔ جس کے جواب میں مولانا صفدر صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ آپ کے بیان کردہ راویوں میں سے کوئی ایک ہو یا ان کے علاوہ اور ہو یقین جانیئے کہ ابراہیم بن ابی یحییٰ کی طرح کذاب توان میں کوئی بھی نہیں ہوگا۔ بعض محدثین کرام نے ان کی توثیق اور بعض نے تضعیف کی ہوگی اور ایسا مختلف فیہ راوی قابل برداشت ہوتا ہے اوراس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی۔ ‘‘(اخفاء الذکر: ص ۶۶)
اندازہ کیجیے! کہ راوی کذاب نہ ہو بعض نے اسے ثقہ ، بعض نے ضعیف کہا ہو تو ’’اصول ‘‘میں بتلایا جائے کہ ’’اس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی۔‘‘ مگر مؤمل بن اسماعیل رحمہ اللہ پھر بھی ضعیف، کیا وہ کذاب ہے ؟ ہرگز نہیں، بعض نے ثقہ ، بعض نے اسے ضعیف کہا وہ مختلف فیہ کیوں نہیں؟ اور اس کی حدیث حسن کیوں نہیں؟
یہی نہیں بلکہ اسامہ رحمہ اللہ بن زید عدوی پر اکثر محدثین نے کلام کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ ’’ ضعیف من قبل حفظہ‘‘ حافظہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔(تقریب: ص ۳۲) اس کے باوجود یہاں اسامہ رحمہ اللہ عدوی، مختلف فیہ راوی ہے اوراس کی حدیث پھر بھی ’’حسن درجہ سے کم نہیں۔‘‘ لیکن مؤمل رحمہ اللہ کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’ صدوق سئ الحفظ‘‘ کہیں (تقریب: ص ۱۰۴) اس کی حدیث کو حسن کہیں مگر وہ پھر بھی ضعیف، بے انصافی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
ہماری گزارشات سے واضح ہو جاتا ہے مؤمل رحمہ اللہ صدوق او ر ثقہ ہے۔ اس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں۔ لہٰذا جب وہ ضعیف نہیں تو ہمارے اس موقف کا بعض عبارتوں سے معارضہ قطعاً صحیح نہیں۔
علاوہ ازیں جناب ڈیروی صاحب نے اپنی ناسمجھی سے جن عبارتوں کو معارض سمجھا ذرا ان کی حقیقت بھی دیکھیے۔ مثلاً کہا گیا کہ ’’صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان کی بھی تمام تر