کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 121
فرماتے تھے: ہر سورت کے لیے رکعت ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں۔
لیجیے جناب! یہاں نامور دیوبندی ترجمان مولانا عثمانی رحمہ اللہ نے مؤمل رحمہ اللہ کو ثقہ اور حسن قرار دیا ہے۔ لہٰذا جب ہمارے نزدیک مؤمل ضعیف ہے ہی نہیں تو راقم کی جن عبارتوں کو وہ معارض قرار دے رہے ہیں،ان میں تعارض ہوا کیسے؟ بلکہ راقم ہی نہیں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن کثیر رحمہ اللہ ، وغیرہ بھی اس کی بیان کردہ روایت کوحسن ، جید قرار دیتے ہیں۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ اس پر جرح کو غیر مضر قرار دیتے ہیں۔ مولانا عثمانی رحمہ اللہ بھی اس کو ثقہ اور حسن درجہ کا قرار دیتے ہیں تو بایں طور بھی تعارض کا کوئی تک نہیں۔ تعارض تو یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ باور کرایا جائے کہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کو صحت و سقم کی پرکھ نہیں تو اور کس کو تھی ؟ ‘‘ (احسن : ج ۱ ص ۴۳۳) مگر مؤمل رحمہ اللہ کے بارے میں ان کی ’’پرکھ‘‘ بے کار، ایک طرف یہ کہا جائے کہ ’’ابوعوانہ کی تمام حدیثیں صحیح ہیں بھلا یہ صحیح ابوعوانہ کے ضعیف راوی کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘ (احسن : ج ۱ ص ۱۹۱) مگر مؤمل صحیح ابوعوانہ کا راوی اور ضعیف، حنفی اصول میں ہمیں یہ بتلایا جائے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے تمام شیوخ ثقہ ہیں (انہاء السکن : ص ۵۶) مگر مؤمل ، امام احمد رحمہ اللہ کے استاد، ضعیف، ایں چہ بوالعجبی است۔!
راقم نے ان تعارضات کا ذکر توضیح الکلام میں بھی کیا مگر ان کا کوئی جواب تاحال نہ شیخ مکرم سے ، نہ ہی تلمیذ رشید سے بن پڑا ۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ مؤمل کی کیا کوئی توثیق نہیں کہ وہ ضعیف ہے۔ مؤمل کے بارے میں جرح نقل کرنے میں جو طریقہ مولانا صفدر صاحب نے اختیار کیا ان کی نشاندہی توضیح الکلام میں کر دی گئی ہے۔ جن حضرات نے ان کے بارے میں یخطئ یا کثیر الغلط کہا ،ان میں اکثر نے اسے صدوق اور ثقہ بھی قرار دیاہے، اور بغیر کلام کے امام ابن معین رحمہ اللہ (جو جرح میں متشدد ہیں) امام اسحاق اور ابن شاہین نے ثقہ کہا۔انصاف شرط ہے ، کیا ضعیف راوی ایسا ہی ہوتا ہے ؟ آپ اسے مختلف فیہ کہہ لیجیے جیسا کہ مولانا ظفراحمد عثمانی رحمہ اللہ نے بھی اعلاء السنن (ج ۳ ص ۶۹) میں ’’مختلف فیہ‘‘ لکھا ہے اور مختلف فیہ راوی کو انہاء السکن وغیرہ میں حسن درجہ کا راوی قرار دیتے ہیں بلکہ مولانا صفدر صاحب بھی لکھتے ہیں:’’مختلف فیہ ہونے کی وجہ سے اس کی حدیث حسن تو ضرور ہے۔‘‘ (احسن : ج۱ ص ۲۹۶)