کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 120
ڈھنڈورچی پیٹتے مگر وہ ایسا تو نہ کر سکے۔ البتہ راقم کی عبارت نقل کرتے ہوئے بددیانتی کا ارتکاب کیا اور جو یہ ذکر کیا تھا کہ ابن حجر رحمہ اللہ ، ابن کثیر رحمہ اللہ وغیرہ اس کی حدیث کو حسن اور جید نہ فرماتے ۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ اس کے رجال کو صحیح اور اس کے راویوں میں کلام کو غیر مضر نہ فرماتے۔ ‘‘ اسے شیر مادر سمجھ کر ہضم کر گئے۔ مؤمل رحمہ اللہ بن اسماعیل رحمہ اللہ پر کلام ہے مگر کیا وہ اس درجہ میں ہے کہ اس کی روایت ضعیف ہو؟ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے تو فرما دیا کہ اس پر کلام غیر مضر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی روایت کو حسن، جید کہا۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ من تکلم فیہ وھو موثق‘‘ میں مؤمل کو ذکر کیا جس کے مقدمہ میں خود انھوں نے وضاحت فرما دی کہ ان راویوں کی روایت حسن درجہ سے کم نہیں اور المغنی میں بھی انھوں نے فرمایا: صدوق مشہور وثق کہ وہ مشہور صدوق راوی ہے جس کی توثیق کی گئی ہے۔ ان کی مزید تشفی کے لیے عرض ہے کہ مولانا ظفر احمد تھانوی ایک سند کے بارے میں لکھتے ہیں:
رواہ الطحاوی باسناد رجالہ ثقات إلا مؤملا فقد تکلم فیہ و وثقہ ابن معین وغیرہ کذا فی التہذیب فالسند حسن۔(اعلاء السنن: ج ۴ ص ۹۵)
کہ اسے علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے ایسی سند سے روایت کیا ہے جس کے راوی مؤمل کے سوا ثقہ ہیں۔ مؤمل رحمہ اللہ میں کلام ہے۔ا بن معین رحمہ اللہ وغیرہ نے اسے ثقہ کہا ہے، جیسا کہ تہذیب میں ہے۔ لہٰذا سند حسن ہے، اسی طرح موصوف ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
قال الطحاوی حدثنا أبوبکرۃ قال ثنا مؤمل قال ثنا سفیان عن عاصم عن ابی العالیۃ قال أخبرنی من سمع النبی صلي اللّٰه عليه وسلم یقول لکل سورۃ رکعۃ ، رجال ثقات۔ (اعلاء السنن :ج ۳ ص ۱۰۸)
امام طحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے ہمیں ابوبکرہ رحمہ اللہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے فرمایا : ہمیں مؤمل رحمہ اللہ نے ،انھوں نے فرمایا ہمیں سفیان رحمہ اللہ نے حدیث سنائی۔ وہ عاصم رحمہ اللہ سے وہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس نے خبر دی جس نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سنا ۔ آپ