کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 119
اصول سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کا یہ اثرحسن ہے بلکہ صحیح ہے اور اس پر دونوں اعتراض محض بے خبری یا دھوکا دہی پر مبنی ہیں۔ پچاسواں دھوکا مؤمل رحمہ اللہ بن اسماعیل کے بارے میں مولانا صفدر صاحب نے مؤمل رحمہ اللہ بن اسماعیل کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے جو روایتی کردار ادا کیا اس کی نقاب کشائی توضیح الکلام (ج ۲ ص ۱۰۳،۱۰۹) میں کر دی گئی ہے۔ راقم نے حنفی اصول اور مولانا صفدر صاحب کے مسلمات کی روشنی میں بھی عرض کیا کہ مؤمل ضعیف نہیں ۔ بالآخر یہ بھی نقل کیا کہ :’’اگر یہ اسی درجہ اور مرتبہ کا راوی ہے جیسے فریق ثانی باور کرانا چاہتا ہے تو امام حاکم رحمہ اللہ ، علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس کی حدیث کو صحیح نہ فرماتے ، امام ابن حبان رحمہ اللہ ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ اور ابوعوانہ رحمہ اللہ اپنی الصحیح میں اس سے روایت نہ لیتے۔ ابن حجر رحمہ اللہ ، ابن کثیر رحمہ اللہ وغیرہ اس کی حدیث کو حسن اور جید نہ فرماتے،علامہ ہیثمی رحمہ اللہ اس کے رجال کو صحیح اور اس کے راویوں میں کلام کو غیر مضر نہ فرماتے۔‘‘ جناب ڈیروی صاحب اپنے شیخ مکرم کے دفاع میں تو کچھ نہ کہہ سکے، البتہ اسی کلام کے حوالے سے انھوں نے یہ تعارض ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خود اثریؔ صاحب نے لکھا ہے کہ ابوعوانہ کی تمام حدیثیں صحیح ہیں محض خوش فہمی پر مبنی ہے (توضیح : ج ۲ ص ۲۶۴)ابوعوانہ میں تو متروک اور کذاب راوی بھی موجود ہیں۔(توضیح : ج ۲ ص ۲۶۵)، ابن حبان اور ابن خزیمہ کا مجہول کو ثقہ شمار کرنے میں تساہل مشہور ہے(توضیح: ج ۲ ص ۴۴۹) ، حافظ ذہبی سے بھی امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت میں تساہل ہوا اور ان کی موافقت میں ان سے متعدد فروگزاشتیں ہوتیں (توضیح: ج ۵ ص ۶۲)، حدیث کی صحت کا مدار رواۃ پر ہوتاہے اگر کوئی راوی ضعیف ہے تو کسی کے صحیح کہنے سے وہ روایت صحیح نہیں ہوجاتی۔ (توضیح :ج ۲ ص ۶۳) ،(ایک نظر: ۲۲۶) ڈیروی صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ پہلے مؤمل رحمہ اللہ کو ضعیف ثابت کرتے ، پھر تضاد کی