کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 118
۲۲ ص ۱۷۲) میں صحیح سند کے ساتھ ’’ حمید قال اخبرنی ہشام بن عامر‘‘ ہے۔ جس میں صراحت سماع موجود ہے۔ اس لیے سماع کا انکار بہرحال درست نہیں۔ مزید برآں یہ بھی دیکھیے کہ حمید رحمہ اللہ اور حضرت ہشام رحمہ اللہ کے مابین ابوالدہماء کے واسطہ کا جو ذکر ہے اس سے مراد حدیث ’’ احفروا واوسعوا واحسنوا ‘‘ الحدیث بھی ہے جس میں بعض نے دونوں کے مابین ابوالدہماء کا اور بعض نے سعد کا ذکر کیا ہے بعض نے براہ راست ہشام سے بلکہ بعض نے صراحت سماع بھی کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
والظاہر أن حمیداً سمعہ من ابی الدہماء و من سعد بن ہشام ثم سمعہ من ہشام نفسہ و فی طریق معمر عن ایوب عنہ أنا ہشام۔ (اتحاف المھرۃ : ج ۱۳ ص ۶۳۲)
’’ظاہر یہ بات ہے کہ یہ روایت حمید نے ابوالدہماء رحمہ اللہ سے اور سعد رحمہ اللہ بن ہشام سے سنی پھر براہ راست اسے ہشام رحمہ اللہ سے سنا اور معمر رحمہ اللہ ،ایوب رحمہ اللہ سے اور ایوب رحمہ اللہ ، حمید رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں اور اس میں’’ انا ہشام‘‘ کہتے ہیں۔ ‘‘جس سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ حمید رحمہ اللہ نے براہ راست حضرت ہشام رحمہ اللہ سے سماع کیا ہے اور حمید رحمہ اللہ مدلس بھی نہیں۔ اس لیے اس روایت میں انقطاع کا اعتراض قطعاً صحیح نہیں۔
اسی طرح امام ابن سیرین رحمہ اللہ کے کلام سے تو یہی مترشح ہوتا ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ ، ابوالعالیہ رحمہ اللہ اور عاصم بن علی ضعفاء سے روایت لیتے ہیں۔ اس لیے ان کی مراسیل درست نہیں۔ مگر یہاں تو ارسال و انقطاع نہیں ۔ حمید کا حضرت ہشام رحمہ اللہ سے سماع ثابت ہے اور جب ہشام رحمہ اللہ سے براہ راست سنا نہیں ہوتا تو ابوالدہماء ، ابوقتادہ اور سعد کا واسطہ ہوتا ہے جو ثقہ ہیں۔ لہٰذا یہاں ضعفاء سے سماع کا احتمال بھی محض تو ہم پر مبنی ہے اور یہ بات تو اپنی جگہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ احناف کے نزدیک مراسیل حجت ہیں۔ اس لیے ان کا اس اثر پر انقطاع کے حوالہ سے اعتراض بالکل غلط ہے اور اپنے