کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 116
فرمایا کہ وہ صحیح الحدیث ہے ۔ اس کی خطائیں کس قدر کم ہیں۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے بھی صدوق کہا۔ ابن عدی رحمہ اللہ نے اس کی تین احادیث ذکر کرکے فرمایا ہے ۔ ان کے علاوہ میں اس کی کوئی منکرحدیث نہیں جانتا ’’ ما اری لحدیثہ بأسًا‘‘ اس کی حدیث سے کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ امام احمد رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ امام ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں دنیا میں جس کا نام عاصم ہے وہ ضعیف ہے۔ انھوں نے فرمایا:میں نے اس میں خیر ہی پایا ہے ۔ اس کی حدیث صحیح ہے(تہذیب: ج ۵ ص ۵۰،۵۱، الکامل :ج ۵ ص ۱۸۷۵،۱۸۷۶) ۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام یحییٰ رحمہ اللہ نے اس پر کلام کیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ وہ صدوق ہے جیسا کہ ابوحاتم رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ (السیر: ج ۹ ص ۲۶۳، المیزان : ج۲ ص ۳۵۵) جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عاصم بن علی صدوق ہیں۔ امام ابن معین رحمہ اللہ اور امام نسائی رحمہ اللہ نے گواس پر جرح کی ہے مگر وہ مفسر نہیں۔ جیسا کہ خطیب بغدادی نے الکفایہ (ص ۱۰۸،۱۰۹) میں کہا ہے اور انہی کے حوالے سے یہی بات حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے مقدمہ( ص ۹۶ )میں اور مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے الرفع والتکمیل (ص ۷۳) میں نقل کی ہے۔ اس لیے ان کی یہ جرح قابل قبول نہیں۔
علاوہ ازیں یہ بات تو ڈیروی صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ عاصم مختلف فیہ ہے،ضعیف نہیں۔ بلکہ ائمہ کرام کے کلام سے عیاں ہوتا ہے کہ جمہور ائمہ جرح و تعدیل نے اسے صدوق و ثقہ قرار دیا ہے اور جناب ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ مختلف فیہ ہونے کی وجہ سے اس کی حدیث حسن تو ضرور ہے۔‘‘ (احسن : ج۱ ص ۲۹۶)۔ لہٰذا عاصم کی حدیث بھی حسن ضرور ہے۔ اس سے انکار محض ضد کا نتیجہ ہے۔
دوسرا اعتراض اور اس کا جواب
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حمید بن ہلال رحمہ اللہ کا حضرت ہشام رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔ اس لیے یہ اثر منقطع ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے :امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ حمید رحمہ اللہ کی روایت ہشام سے مرسل ہے(تہذیب: ج ۱۱ ص ۴۲)۔ نیز انھوں نے فرمایا کہ حمید رحمہ اللہ کی ہشام رحمہ اللہ سے ملاقات نہیں۔ (تہذیب: ج ۳ ص ۵۲) ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چار شخص ایسے ہیں جو ہر کسی کی سنی سنائی بات کی تصدیق کر دیتے ہیں اورا س کی پرواہ نہیں کرتے کہ بات کرنے