کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 115
صاحب نے بلاتأمل یہ سمجھا کہ یہاں اثری صاحب نے ’’ رجالہ موثقون‘‘ کو صحیح کہہ دیا حالانکہ وہ خود کہتے ہیں رجال کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی اس جملہ سے سب راوی ثقہ ہوتے ہیں۔ملخصاً (ایک نظر: ص ۲۳۵،۲۳۶)
مگر ڈیروی صاحب نے غور نہیں فرمایا کہ راقم تو جناب مولانا صفدر صاحب سے عرض کر رہا ہے کہ آپ نے تیسرے باب میں حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کا وہ اثر تو ذکر کیا ہے جسے آپ ضعیف قرار دیتے ہیں مگر وہاں یہ اثر اس سند کے حوالے سے ذکر نہیں کرتے جس کے سب راویوں کو آپ ثقہ کہتے ہیں بلکہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ’’حضرت ہشام رحمہ اللہ ‘‘ بھی امام کے پیچھے جہر سے پڑھتے ہیں۔‘‘ کیا انھوں نے یہ استدلال اس اثر کو صحیح سمجھ کر نہیں کیا؟ گویا اسے یہاں صحیح ان کے مسلمات اور استدلال سے الزامی طور پر کہا ہے۔ یوں نہیں کہ ’’رجالہ موثقون ‘‘کی بنا پر صحیح کہا ہے۔ اس لیے ان کا یہ اعتراض بھی درست نہیں اور حقیقت سے اغماض کے نتیجہ میں دھوکا پر مبنی ہے۔ اس وضاحت کے باوجود ہم نے طبع ثانی میں صفدر صاحب کے اس استدلالی پہلو کی بجائے ان کے الفاظ نقل کرنے پر اکتفا کی ہے تاکہ یہ فضول اعتراض کلیۃً ختم ہو جائے۔ اگراس کے باوجود ڈیروی صاحب مطمئن نہیں تو عرض ہے کہ یہ اثر بلاریب حسن بلکہ صحیح ہے۔
حضرت ہشام رحمہ اللہ کا اثر
جناب ڈیروی صاحب اس اثر پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ اس کی سند میں عاصم بن علی ہے جو متکلم فیہ ہے ۔ اگرچہ بعض محدثین نے اس کو ثقہ کہا ہے لیکن بعض اس کو ضعیف اور خطا کار ٹھہراتے ہیں۔‘‘ائمہ جارحین میں سے جن حضرات کا انھوں نے نام لیا ان میں ایک امام ابن معین رحمہ اللہ ہیں اور دوسرے امام نسائی رحمہ اللہ ہیں یا پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا تقریب سے کلام ہے کہ وہ ’’ صدوق ربما وھم‘‘ کہ وہ صدوق اور بسااوقات اس کو وہم ہو جاتا ہے۔(ایک نظر: ص ۲۳۶)
حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے وہ استاد ہیں اور انھوں نے اس سے احتجاج کیا ہے ۔ (میزان )۔امام العجلی، ابن سعد، ابن قانع نے ثقہ کہا ہے، امام احمد نے صدوق کہا ، نیز