کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 114
نسبت کی ہے ۔ ان کے علاوہ تمام محدثین نے اس کی توثیق کی ہے اور کسی نے بھی اس کی طرف وہم کی نسبت نہیں کی۔ (توضیح: ج۱ ص ۴۳۰) اور امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں عبیدالله کا وہم ہے۔ جیسا کہ توضیح (ج۱ ص ۴۳۴) میں اس پر اعتراض کو نقل کرکے اس کی حقیقت بھی بیان کر دی گئی ہے، جس سے جناب ڈیروی صاحب یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ تضاد ہے پہلے ابن سعد رحمہ اللہ کے علاوہ باقی محدثین سے توثیق نقل کی گئی بعد میں ابوحاتم رحمہ اللہ سے عبیدالله کے وہم کا ذکرکیا گیا ہے۔(ایک نظر: ص ۲۵۰)
لیکن انھوں نے عجلت میں بالکل غور نہیں کیا کہ راوی پر وہم کی جرح کا ہونا اور ثقہ راوی سے وہم ہونے میں فرق ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اگرچہ اس روایت کے بارے میں وہم کی نسبت عبیدالله کی طرف کی ہے مگر وہی فرماتے ہیں کہ عبیدالله رحمہ اللہ ’’ صالح الحدیث ثقۃ صدوق لا اعرف لہ حدیثا منکرا‘‘ (تہذیب: ج ۷ ص ۴۲، الجرح والتعدیل : ج ۲ق ۲ ص ۳۲۹ ) صالح الحدیث ، ثقہ وصدوق ہے ۔ میں اس کی کوئی حدیث منکر نہیں جانتا۔اس لیے عبید رحمہ اللہ الله کی طرف وہم کی نسبت سے اسے وہی وہمی قرار دے گا جو خود وہم میں مبتلا ہے اور اس فرق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
انچاسواں دھوکا
حضرت ہشام رضی اللہ عنہ بن عامر کا اثر امام طبرانی رحمہ اللہ کے حوالے سے مولانا صفدر صاحب نے نقل کیا اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ سے نقل کیاکہ رجالہ موثقون اس کے راوی سب ثقہ ہیں۔ (حاشیہ احسن : ج ۲ ص ۴۶) بلکہ اس اثر کو بطور استدلال پیش کیا کہ حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ بھی امام کے پیچھے جہر سے قراء ت کرتے تھے۔ راقم نے حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کے اس دعویٰ کی حقیقت توضیح (ج ۱ ص ۱۶۳) میں بیان کر دی اور حاشیہ میں یہ بھی عرض کیا کہ مولانا صفدر صاحب کی چالاکی دیکھیے کہ تیسرے باب میں اثار صحابہ کے سلسلے میں حضرت ہشام رضی اللہ عنہ بن عامر کا وہ اثر نقل کیا جو بسند ضعیف مروی ہے اور جس میں صرف قراء ت کا ذکر ہے اور وہاں اس صحیح اثر کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ جناب ڈیروی