کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 112
نے جو ان پر تعاقب کیا ہے اس پر مولانا بنوری رحمہ اللہ نے اظہارناراضی فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ جب حضرت شیخ خود اسے رواۃ الحسان میں شمار کررہے ہیں تواس کے تعاقب کی کوئی حیثیت نہیں۔ علامہ بنوری رحمہ اللہ کے تعاقب کے بارے میں عرض کیا گیا ہے کہ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جب آپ کے ہاں ابن اسحاق رحمہ اللہ پر جرح مدفوع ہے تو ابن اسحاق کو صحیح کے رواۃ میں شمار کرنا چاہیے اور راقم نے جو یہ عرض کیا کہ ابن اسحاق رحمہ اللہ کی روایت کو حسن اور بعض نے صحیح کہا ہے تواس میں واقعاتی اظہار ہے۔ اسے تضاد سے تعبیر کرنا محض دھوکا اور تضاد فکری کا نتیجہ ہے۔
چھیالیسواں دھوکا
آیت انصات کا تعلق کس نماز سے ہے؟
مولانا صفدر صاحب نے اپنے بعض پیش رو بزرگوں کے قول کی بنیاد پر آیت انصات کو جہری و سری دونوں نمازوں پر محمول کیا ہے، جب کہ علامہ کشمیری رحمہ اللہ ، علامہ بنوری رحمہ اللہ ، علامہ محمدعابدسندھی رحمہ اللہ ، علامہ نیموی رحمہ اللہ و غیرہ نے اسے صرف جہری نمازوں کے لیے قرار دیا ہے اور انہی کی تائید میں امام بیہقی رحمہ اللہ کا بھی حوالہ دیاگیا ہے کہ بعض صحابہ و تابعین نے جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراء ت ترک کی نہ کہ سری نمازوں میں (توضیح : ج ۲ ص ۱۹۲) جناب ڈیروی صاحب نے سمجھا کہ یہاں بھی تضاد پایا جاتا ہے، کیونکہ راقم نے یہ بھی لکھا ہے کہ’’ لہٰذا قرآن مجید میں جو انصات کا حکم ہے اس سے دیگر دلائل کی روشنی میں حقیقی یعنی بالکل خاموشی مراد نہیں بلکہ بلند آواز سے پڑھنے یعنی قراء ت مشوشہ کی نہی مراد ہے۔ ‘‘(توضیح: ج۲ ص ۲۱۵)
اور اس کو وہ تضاد سمجھ رہے ہیں۔(ایک نظر: ص ۲۴۹)
حالانکہ بات بڑی واضح ہے کہ اگر بعض صحابہ و تابعین نے جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراء ت ترک کی تھی تو بعض صحابہ و تابعین جہری میں بھی امام کے پیچھے قراء ت کرتے تھے۔ بلکہ جمہور بھی اس کے قائل تھے۔ قراء ت کرنے والوں کے بارے میں یہ