کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 111
کیا گیا کہ محدث مبارک پوری رحمہ اللہ نے علامہ کشمیری رحمہ اللہ پر تعاقب کیا ہے کہ جب ابن اسحاق رحمہ اللہ پر جرح مدفوع ہے تو اسے رواۃ حسان میں نہیں بلکہ صحیح کے رواۃ میں شمار کرنا چاہیے۔ توضیح (ج ۱ ص ۲۸۷) ، اس کے بارے میں جناب ڈیروی صاحب فرماتے ہیں کہ اثری صاحب لکھتے ہیں: امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں جو راوی صحیح کی شرطوں کے مطابق نہیں، ان میں ایک ابن اسحاق ہے۔ (یہ اعتراض دراصل مولانا صفدر صاحب نے احسن (ج ۲ ص ۷۲) میں کیا ہے جس کے جواب میں عرض کیا گیا) کہ بلاشبہ ابن اسحاق رحمہ اللہ الصحیح کی شروط کے مطابق نہیں بلکہ اس کی روایت حسن اور بعض محدثین نے اس کی روایات کو صحیح بھی کہا ہے۔(توضیح: ج ۱ ص ۲۴۸) بس اسی بنا پر ڈیروی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ تضاد ہے ۔(ایک نظر: ص ۲۴۸)
مگر یہ اعتراض درست نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ کے کلام میں اور راقم کے الفاظ کہ ’’ابن اسحاق الصحیح کی شروط کے مطابق نہیں۔‘‘ میں الصحیح سے مراد صحیح حدیث نہیں بلکہ بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق نہ ہونے کی بات ہے۔ ’’الصحیح ‘‘کو ہم نے قوموں (’’‘‘)کے اندر رکھ کر اس طرف اشارہ بھی کر دیا مگر افسوس کہ ڈیروی صاحب اسے سمجھ نہ سکے۔ بلکہ اس کے بعد توضیح میں مقدمہ مسلم کے حوالے سے جو کچھ ہم نے نقل کیا وہ بھی اس کا مؤید ہے، جسے ڈیروی صاحب نے ملحوظ نہیں رکھا۔ خود علامہ نووی رحمہ اللہ ، ابن رحمہ اللہ اسحاق کی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
ھذا الاسناد صحیح والجمہور علی الاحتجاج بمحمد بن اسحاق اذا قال حدثنا۔ (شرح المھذب : ج ۸ ص ۲۳۴)
’’کہ یہ سند صحیح ہے۔ جمہور محمد بن اسحاق کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جب وہ حدثنا کہے‘‘، اور فاتحہ خلف الامام کی روایت کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ اور دارقطنی رحمہ اللہ کی تحسین ، علامہ خطابی رحمہ اللہ سے اسنادہ جید لا مطعن فیہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی تصحیح نقل کی ہے ۔ (شرح المہذب : ج ۳ ص ۳۶۶) اس لیے الصحیح کی شروط سے مراد بخاری و مسلم کی شروط مراد ہیں۔ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے ابن اسحاق رحمہ اللہ کو رواۃ حسان میں شمار کیا ہے۔ مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ