کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 109
تینتالیسواں دھوکا
ابواسحاق رحمہ اللہ کی تدلیس کا ناکام دفاع
راوی اگر رجل من اصحاب النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یا عمن سمع النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم کہہ کر روایت کرے تو وہ روایت متصل ہوگی یا نہیں توضیح الکلام (ج ۱ ص ۴۰۶،۴۲۳) میں اس پر سیر حاصل بحث ہے اور ذکر کیا ہے کہ یہ متصل ہے ۔ جمہور اس کے قائل ہیں ۔ اس حوالے سے امام ترمذی رحمہ اللہ کے بھی دو قول ذکر کیے ہیں ۔ ایک کتاب الجہاد باب ما جاء فی الشعار (ترمذی: ج ۳ ص ۲۵) سے کہ انھوں نے بواسطہ سفیان عن ابی اسحاق عن المھلب عمن سمع النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ایک حدیث نقل کرکے سکوت کیا اور اس کے متصل بعد فرماتے ہیں: وروی عنہ المھلب بن ابی صفرۃ عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم مرسلا ظاہر ہے کہ دوسری سند کو مرسل کہنا اور پہلی پر سکوت کرنا اس کے متصل ہونے کی دلیل ہے۔ اور دوسری مثال ترمذی مع التحفہ (ج ۴ ص ۲۶۵) سے دی جہاں انھوں نے عن جری النھدی عن رجل من بنی سلیم کے متعلق کہا ہے: ھذا حدیث حسن (توضیح: ج ۱ ص ۴۲۰) ڈیروی صاحب نے ناسمجھی میں بات کو اصل موضوع سے ہٹا کر دھوکا دینے کے لیے یہ کہہ دیا کہ اثری صاحب کو یہاں اپنا مطلب نکالنا مقصود ہے ورنہ وہ تو ابواسحاق کی معنعن روایت تدلیس کی وجہ سے متصل تسلیم نہیں کرتے۔ یہاں امام ترمذی رحمہ اللہ کے صرف سکوت سے یہ روایت متصل کیسے ہو گئی۔ملخصاً (ایک نظر: ص ۲۲۵)
حالانکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے دوسری کو مرسل کہا اور پہلی پر سکوت کیا تو اس کی علت بالکل واضح ہے کہ مرسل میں المہلب براہ راست رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، جب کہ دوسری سند میں المہلب عمن سمع النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ بتلایا جائے پہلی سند ، دوسری کے مقابلے میں متصل نہیں ؟ افسوس کہ ڈیروی صاحب اصل موضوع جس کے لیے یہ مثال پیش کی گئی اس پر تو کوئی معارضہ نہ کر سکے البتہ دل کا غبار ہلکا کرنے کے لیے ابواسحاق رحمہ اللہ کی تدلیس کی بنا پر فرماتے