کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 108
انتہائی سطحی بات ہے جو صاحب بڑی دلیری سے الکامل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پرامام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور امام نضر بن شمیل رحمہ اللہ کی جرح کا انکار کر سکتے ہیں۔ (کما مر) ان کے لیے یہ بات بڑی معمولی ہے کہ یہاں تو مسلمہ لکھا ہوا ہے ، سلمۃ کیسے تسلیم کر لیا جائے۔ مطبوعہ کتابوں میں اس نوعیت کی غلطیوں سے کوئی اہل علم انکار نہیں کر سکتا۔ البتہ ضد کے ماروں کا کوئی علاج نہیں۔ کیا ڈیروی صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ الکامل کا مطبوعہ نسخہ جس طرح لکھا ہوا ہے بالکل درست ہے ؟ سلمۃ سے مسلمۃ تو خیر اتنی بڑی بات ہی نہیں، یہاں تو (ج ۱ ص ۲۰۲) احمد بن محمد بن صاعد کے ترجمہ میں احمد بن محمدا لصلت کا ترجمہ شامل ہو گیاہے۔ اور احمد بن الصلت کا عنوان ہی ساقط ہو گیا ہے۔ جیسا کہ اللسان وغیرہ اور الکامل طبع ثالث سے عیاں ہوتا ہے۔ مگر ڈیروی صاحب شاید یہاں بھی مطبوعہ نسخہ کو ہی حرف آخر سمجھیں گے۔
مسلمۃ کے بارے میں توانھوں نے فرمادیا کہ وہ مجہول ہے لیکن کیا تنہا مسلمۃ ہی اسے امام المقرئ سے روایت کرتے ہیں۔ہرگز نہیں بلکہ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا محمود بن غیلان بھی یہ قول نقل کرتے ہیں۔ مگرڈیر وی صاحب تواس سند کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کر گئے ہیں۔
یہ راوی سلمۃ بن شبیب کیوں ہے ، اس لیے کہ وہ امام ابوعبدالرحمن عبدالله بن یزید المقرئ کے مستملی ہیں اور ان کے تلامذہ میں سلمۃ ایک معروف نام ہے ، جیسا کہ التہذیب للمزی (ج ۷ ص ۴۳۸) اور التہذیب للحافظ (ج ۴ ص ۱۴۶) سے عیاں ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ہم نے اسباب اختلاف الفقہاء (ص ۶۱) میں وضاحت کر دی ہے کہ الکامل میں سلمۃ کی بجائے مسلمۃ غلط لکھا ہوا ہے، بلکہ الکامل (ج ۷ ص ۶) طبع ثالث میں توہے ہی سلمۃ بن شبیب، جس سے الکامل کی طبع اول میں غلطی واضح ہو جاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا قول تنہا ابن عقدہ رحمہ اللہ اور سلمۃ رحمہ اللہ کی سند سے منقول نہیں۔ بلکہ اس کی صحیح سند بھی موجود ہے، محض تائید میں یہ دوسری سند ذکر کی ہے۔ اس قول کا مدار ابن عقدہ پر ہوتا تو اعتراض کی گنجائش تھی لیکن یہاں صورت واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے۔