کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 105
۲۸۳) وغیرہ مگر مولانا صفدر صاحب قتادہ رحمہ اللہ کی تدلیس کو صحت حدیث کے منافی نہیں سمجھتے۔ اسی بنا پر حضرت سعید رضی اللہ عنہ بن مسیب کا اثر نقل کرکے کہا ہے: اس میں قتادہ رحمہ اللہ مدلس ہے او رروایت معنعن ہے، مگر مولانا صفدر صاحب کے ہاں تو تدلیس مضر نہیں(احسن : ج۱ ص ۲۰۱) لہٰذا انھیں اس کے انکار سے اجتناب کرنا چاہیے۔(توضیح: ج۱ ص ۵۵۵) اس کے جواب میں جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں: مولانا صفدر صاحب دام مجدھم کی بات آپ اس روایت میں تو نہیں مانتے جو آپ کے خلاف ہو جب موافق ہو تو صفدر صاحب کی بات مانتے ہو تمھیں شرم و حیاکرنا چاہیے اور پانی میں ڈوب مرنا چاہیے:’’بے حیا باش وہر چہ خواہی کن۔ ( ایک نظر: ص ۲۲۲)
قارئین کرام ! جناب شیخ الحدیث صاحب کی زبان و بیان ملحوظ رہے ۔ ہم نے الزامی طو رپر عرض کیا تھا کہ جب قتادہ رحمہ اللہ کی تدلیس مولانا صفدر صاحب کے نزدیک صحت حدیث کے منافی نہیں تواس اثرکا کم از کم انھیں تو انکار نہیں کرنا چاہیے۔ شاگرد رشید نے اس خفت کو مٹانے کے لیے جو انداز اختیار کیا اس کے متعلق صرف اتنا عرض ہے کہ مولانا صفدر صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’فریق ثانی کی طرف سے جن میں خاص طو رپر امام بخاری رحمہ اللہ علیہ الرحمۃ بھی قابل ذکر ہیں یہ کہا گیا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ اپنے کلام کو حدیث میں ملا دیا کرتے تھے ، تو ہم بھی الزامی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیا بعید ہے کہ اس حدیث میں خلف الامام کا جملہ امام زہری رحمہ اللہ نے مرفوع حدیث میں ملا دیا ہو۔(احسن : ج۲ ص ۸۹)
ہم جناب صفدر صاحب کے تلمیذ رشید کی زبان ہی میں یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ امام بخاری علیہ الرحمۃ وغیرہ کی بات آپ اس روایت میں تو نہیں مانتے جو آپ کے خلاف ہے مگر اپنی طرف سے فرضی بات بنا کر ان کی بات مانتے ہو ۔۔۔۔ اب جو کچھ تلمیذ رشید نے لکھا ہے اس کے آگے وہی کچھ اپنے شیخ مکرم کے بارے میں لکھ لیں ہمیں تو ان کے بارے میں یہ الفاظ لکھتے ہوئے بھی حیا آتی ہے۔ بتلائیے! اس انداز دفاع میں شاگرد نے شیخ مکرم کے پلے کیا چھوڑا ہے ؟؟؟