کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 103
بتلائیے! جب ان حضرات کے نزدیک مجتبی النسائی میں روایت کا ہونا اور امام نسائی کا اس پر سکوت کرنا صحت حدیث کی دلیل ہے تویہی دلیل نافع بن محمود کی روایت کے لیے قابل قبول کیوں نہیں؟
رہی ڈیروی صاحب کی کوشش اور امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے استدلال تو سنن نسائی میں تبویب کی تفصیل ہم توضیح میں بیان کرچکے ہیں۔ کاش! ڈیروی صاحب اسے ملحوظ رکھتے۔ اگر تسلی نہیں تھی تو اس پر کچھ کہہ دیا ہوتا تاکہ ہمیں بھی اپنی معروضات پیش کرنے کا موقع مل جاتا۔
چالیسواں دھوکا
کیا قراء ت خلف الامام بالاجماع جائز ہے؟
راقم اثیم نے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور علامہ السبکی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے فاتحہ خلف الامام بالاجماع جائز ہے ، مکروہ یا حرام نہیں۔ پڑھنے والے کی نماز مکمل ہے اسے دوبارہ نماز لوٹانے کی کوئی ضرورت نہیں(توضیح: ج۱ ص ۵۵) اس کے برعکس جناب ڈیروی صاحب نے چند آثار نقل کرکے بالآخر لکھا ہے کہ یہ چند حوالے صحابہ کرام و تابعین عظام کے آپ کی خدمت میں پیش ہیں تاکہ مولانا اثری صاحب کے اس جھوٹ کا پردہ چاک ہو جائے کہ چوتھی صدی ہجری تک تمام علماء کا اس پر اجماع تھا کہ وہ الحمد امام کے پیچھے پڑھنے کی اجازت دیتے تھے۔(ایک نظر: ص ۲۲۱)
قارئین کرام سے اپیل ہے کہ اس سلسلے کی وضاحت کے لیے خود توضیح الکلام (ج۱ ص ۵۵،۵۶) ملاحظہ فرمائیں۔ جہاں راقم نے علمائے احناف کے تین قول نقل کیے ہیں۔
۱۔ ترک قراء ت ،یہ نہیں کہ قراء ت خلف الامام مکروہ یا حرام ہے۔
۲۔ مکروہ تحریمی ہے۔
۳۔ سری نماز میں امام کے پیچھے پڑھنا مستحسن ہے۔
پہلے قول کی تفصیل ہی میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول نقل کیا گیا ہے۔