کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 102
نسائی رحمہ اللہ نے اس(نافع بن محمود ) کی روایت کو سنن نسائی میں ذکر کیا، اس لیے ان کے نزدیک بھی یہ حسن یا صحیح ہے۔ کیونکہ ابن عجلان رحمہ اللہ کی حدیث واذا قرأ فانصتوا کے متعلق انھوں نے کہا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ حالانکہ امام نسائی سے اس کی صحت کے متعلق کوئی صریح قول منقول نہیں (توضیح : ج ۱ ص ۳۶۴) اس وضاحت کے باوجود حیرت ہے ڈیروی صاحب بڑی معصومیت سے سوال کرتے ہیں :’’جب نسائی میں کسی حدیث کا آجانا اثری صاحب کے نزدیک صحت کی دلیل نہیں تو پھر نافع بن محمود رحمہ اللہ کی روایت کے بارے میں امام نسائی رحمہ اللہ کو مصححین کی فہرست میں شامل کرنے کا کیا مقصد ؟(ایک نظر: ص ۲۱۱)
مقصد تو بالکل واضح ہے ڈیروی صاحب نے ہی سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ امام نسائی رحمہ اللہ کو مصححین کی فہرست میں اس طرح شامل کیا گیا ہے جس طرح مولانا صفدر صاحب اور ا ن کے پیشرو بزرگوں نے ابن عجلان رحمہ اللہ کی روایت کے بارے میں کہا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ ڈیروی صاحب اور ان کے ہم نوا جب صراحۃً امام نسائی رحمہ اللہ سے ابن عجلان رحمہ اللہ کی تصحیح ثابت نہیں کر سکے تو پھر یہ دعویٰ صحت جس دلیل پر قائم ہے وہی دلیل نافع بن محمود رحمہ اللہ کی روایت کی صحت پر تسلیم کیوں نہیں؟ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے فصل الخطاب (ص ۸۷) میں اور انہی کے حوالے سے ان کے تلمیذ رشید مولانا عبدالعزیز نے لکھا ہے :’’ ثم النسائی من حیث اخراجہ ایاہ فی مجتباہ‘‘ کہ پھر نسائی نے اسے صحیح کہا ہے ۔ اس لحاظ سے کہ انھوں نے اسے المجتبیٰ میں ذکر کیا ہے(حاشیہ نصب الرایہ: ج ۲ ص ۱۵) خود مولانا صفدر صاحب نے حضرت ابوموسیٰ کی روایت کے بارے میں مصححین کے ناموں میں امام نسائی رحمہ اللہ کا نام لے کر فتح الملہم (ج ۲ ص ۲۲) کا حوالہ دیا (احسن : ج۱ ص ۲۱۷) اور فتح الملہم (ج ۲ ص ۲۲) میں ہے:’’ ثم النسائی من حیث اخراجہ ایاہ فی مجتباہ‘‘ کہ نسائی نے اسے صحیح کہا ہے ۔ اس اعتبار سے انھوں نے اسے مجتبیٰ میں ذکر کیا ہے۔ مولانا ظفراحمد عثمانی بھی لکھتے ہیں : نسائی نے اس پر سکوت کیا ہے۔ لہٰذا یہ ان کے نزدیک صحیح ہے۔(اعلاء السنن : ج ۱ ص ۱۶۰)