کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 100
ہے۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کے نقل کر دہ قول کو محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کے نقل کردہ قول سے رد کرنا قرین انصاف نہیں ۔(توضیح : ج ۱ ص ۴۵۵) اسی طرح ابوجعفر رازی کے بارے میں بھی امام علی بن المدینی کا قول مختلف ہے۔ ان کے بیٹے عبدالله بن علی نقل کرتے ہیں کہ ابوجعفر موسیٰ بن عبیدہ کی طرح ہے مگر محمد بن عثمان بن ابی شیبہ نقل کرتے ہیں کہ ابوجعفر ثقہ ہے۔ اس اختلاف میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: محمد بن عثمان ضعیف ہے اور عبدالله بن علی کی اپنے باپ سے روایت اولیٰ ہے۔ حاشیہ توضیح (ج ۲ ص ۶۲۲) جناب ڈیروی صاحب اس اصل پس منظر سے صرف نظر کرکے لکھتے ہیں:’’یہی محمد رحمہ اللہ بن عثمان جو اثری صاحب کے ہاں ضعیف بھی ہے کذاب بھی اور حدیثیں بھی وضع کرتا ہے ،یہ راوی اثری صاحب کے خلاف مقصد روایت کرتا ہے ، اس لیے وہ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے مگر جہاں اثری صاحب کے موافق یہی راوی روایت کرے گا تو وہ ثقہ ہو جائے گا۔ جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر امام یحییٰ بن معین کے قول ’’ کان یضعف فی الحدیث‘‘ کی سند میں یہی محمد رحمہ اللہ بن عثمان ہے جسے اثری صاحب نے ثقہ کہہ دیا ہے۔ ملخصاً (ایک نظر: ص ۲۰۹)
مگر ڈیروی صاحب نے غور نہیں فرمایا کہ راقم نے محمد بن عثمان کو مختلف فیہ قرار دیا اور امام عبدالله بن احمد اور ابن خراش کی جرح نقل کرنے کے بعد امام ابن عدی اور امام عبدان وغیرہ سے اس کی توثیق بھی نقل کی۔ جسے ڈیروی صاحب نے نظر انداز کر دیا۔ ظاہر ہے کہ ایسے مختلف فیہ راوی کا بیان کردہ قول امام بخاری رحمہ اللہ کے مقابلے میں کیونکر قابل قبول ہوسکتا ہے ؟ راوی پر کبھی کلام تقابل کی بنا پر ہوتا ہے ۔ ڈیروی صاحب ہی انصاف فرمائیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے مقابلے میں محمد بن عثمان رحمہ اللہ اور ان کے قول کی حیثیت کیا ہے ؟ یہی کیفیت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے محمد رحمہ اللہ بن عثمان کو ضعیف کہنے کی ہے۔ مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح نقل کرنے میں محمد رحمہ اللہ بن عثمان منفرد نہیں۔ دوسری سند سے بھی امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے جرح ثابت ہے جیساکہ توضیح میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے ۔ ڈیروی صاحب کو چاہیے کہ وہ اصل پس منظر سے آنکھیں بند کرکے بات بگاڑنے اور دھوکا دینے کی کوشش نہ کریں۔