کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 98
موجود نہ ہوں اور نہ ہی عمل ِصحابہ رضی اللہ عنہم ہو۔ اور یہ بات اِس حدیث میں بھی واضح کی گئی ہے اور پھر یہاں کسی مسئلہ کا حل تو نکالنا مقصود نہیں بلکہ یہاں تو صرف یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ایک رات میں دوہزار رکعتوں کی ادائیگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا انکے بعد ہمارے اسلاف سے ثابت ہے یا نہیں ؟اگر نہیں تو پھرصریحاً بدعت ہے وہ بھی اِس صورت میں کہ مان لیا جائے کہ دوہزار رکعتیں ادا کی جا سکتی ہیں ،حالانکہ یہاں شرعاً اور عقلاً دونوں لحاظ سے یہ بات نا قابل ِ یقین ہے ۔اور منوانے کے لیے اس کے ساتھ معراج کی مثال دینا گویا کہ اپنے بزرگ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کی برابری دینے کی مذموم کوشش کی گئی ہے جو کہ کفر کے زینے کہ پہلی سیڑھی ہے ۔العیاذ باللّٰہ یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ اِس بات کا اجتہاد کے مسٔلہ سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور اگر اجتہاد کا مسئلہ ثابت کرنا ہی مقصود ہوتو اسکے لیے کتب ِ احادیث میں کئی صحیح احادیث موجود ہیں پھر اِس کمزور سہارے کی ضرورت نہیں ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب کی اپنی بات ہی انکی تردید کرتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اہل ِ حدیث اجتہاد کو نہیں مانتے حالانکہ انکے (مولانا) اور اہل ِحدیث کے درمیان یہی چیز تو فرق کرتی ہے کہ اہل ِحدیث آج بھی اجتہاد کے قائل ہیں جبکہ وہ اور انکا گروہ اجتہاد کا منکر اور تقلید کا دلدادہ ہے ۔اللہ انکو سوچنے سمجھنے کی توفیق عطا ء فرمائے ۔آمین سوال 2: فجر کی دو سنتیں: ایک دن میں اور بھائی ممتاز صاحب فجر کی نماز کے لیے ایک ہی وقت مسجد کے دروازے پر پہنچے اُس وقت اقامت ہورہی تھی۔میں جا کر جماعت میں شامل ہوگیا وہ حسبِ معمول دیوار کے پیچھے کھڑے دو سنتیں پڑھ کر جماعت میں شامل ہوئے تھے ۔نماز کے بعد میں نے بھائی صاحب کوصحیح حدیثوں کی روشنی میں فجر کی دوسنتوں کے بارے میں سمجھایا تو وہ کہنے لگے :ہمیں تواسی طرح تاکید کی گئی ہے تو پھر بات مولانا پر آئی ۔یہاں پر ایک مثال اچھی لگتی ہے :