کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 95
اپنے راستے دکھادیتا ہوں۔‘‘ مدرسۂ شاہ ولی اللہ(بنگلور) میں علمائے کرام سے ایک ملاقات: میں نے دوسری چھٹی کے دوران جن لوگوں سے ملا قات کی اور جن مسائل سے دوچار ہوا ب ان چیزوں کو میں آپ کے سامنے رکھنے جا رہا ہوں۔اسے آپ میرے پہلے کھلے خط’’تلاش ِ حق کا سفر‘‘ کی دوسری کڑی یا قسط سمجھیں۔اس مرتبہ پھر جب میں بھائیوں سے ملتا، مساجد کو جاتاتو اُن کی حرکات اور عبادات(جو خرافات سے بھری ہوئی ہیں )دیکھ کر میں خاموش نہیں رہ سکا اور ہر دن دو چار گھنٹے اسی میں نکل جاتے تھے ۔جب بھائیوں کے پاس میرے سوالوں کے جواب نہ ہوتے تو کہتے کہ کیوں نہ ہم مولانا سے بات کریں جس کے لیے میں ہمیشہ آمادگی کا اظہار کرتا جس کی وجہ سے دو چار بھائیوں نے مولانا کو منوالیا اور وہ مجھ سے بات کرنے کو تیار ہوگئے ۔ ہماری رہائشوں کے قریب نہیں بلکہ انکے مدرسہ میں ،جو ہمارے گھروں سے بہت دور واقع ہے ۔یہ حرکت انھوں نے اس لیے کی کہ وہ میرے ساتھ دوسرے بھائیوں اور انکے بچوں سے بچنا چاہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے مدرسہ اور دوسرے مدرسے کے اساتذہ کو اپنے ساتھ رکھنا اُن کا مقصود تھا۔بہر حال اُن کی شرط کو منظور کرتے ہوئے میں پہنچ گیا۔مولانا اپنے بچپن سے مجھے جانتے ہیں اور میری دینی اور دنیوی تعلیم سے بھی واقف ہیں ،اسکے باوجود جب میں مدرسہ میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صرف انکے مدرسہ کے مدرسین ہی نہیں بلکہ دوسرے مدرسوں سے بھی مفسرین اور محدِّثین کو اِکٹھا کیے ہوئے تھے ۔اس سے صاف ظاہر ہورہا تھاکہ مولانا کو اپنے آپ پر بھروسہ نہیں تھا۔اُن کو پتہ تھاکہ وہ میرے سوالوں کے جواب دے نہیں پائینگے ۔اس لیے دوسروں پر بھروسہ کر کے انھیں بلالیا تھا۔میرے بھائی آپ دیکھ چکے ہیں اور اُس دن کے انجام سے بھی اچھی طرح واقف ہیں ۔وہ سارے مفسرین و محدّثین مل کر بھی میرے کسی سوال کا جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں دینے سے ناکام رہے ۔میرے چند سوالات یہ تھے :