کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 78
شائد اسی حدیث کے پیش نظر یہ لوگ تیسری رکعت میں ہاتھ اٹھا کر (مغرب اور وتر کے درمیان) فرق پیدا کرلیتے ہیں حالانکہ فرق پیدا کرنے کے لیے اِس خود ساختہ طریقے کو چھوڑ کر سنّت پر عمل کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔ تاکہ ثواب بھی ہو اور اطاعت بھی ، نہ کہ بدعت کو اپنانے کا گناہ ملے ۔ وہ طریقہ یوں ہے : 1حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ِعشاء کے بعد فجر سے قبل گیارہ رکعت ادا فرمایا کرتے ، ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت ادا کرکے وتر بنالیتے ۔ (مسلم) 2 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین وتر پڑھتے تو صرف آخری رکعت میں بیٹھتے ۔ (مستدرک حاکم) 3 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل میں تیرہ رکعت ادا فرماتے ، جن میں پانچ وتر ہوتے ۔ اور وتر پڑھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف آخری رکعت میں ہی تشہد فرماتے ۔(بخاری و مسلم) مندرجہ بالا احادیث میں وتر ادا کرنے کے دوطریقے آئے ہیں اول یہ کہ وتر (تین ادا کرنے ہوں تو) پہلی دو رکعتیں علیحدہ کر کے پڑھی جائیں اور آخری رکعت کو اکیلا( وتر) کرکے پڑھا جائے ۔ نوٹ: وتر کا لفظی مطلب ہی ایک یعنی طاق ہے ۔اور دوسرے طریقے میں وتروں کی (جتنے بھی پڑھے جائیں یعنی تین، پانچ، وغیرہ میں ) کسی رکعت میں تشہد نہ بیٹھیں (جیسے دوسری اور چوتھی رکعت میں التحیات بیٹھا جاتا ہے ) اور صرف آخری رکعت (یعنی تیسری، پانچویں وغیرہ) میں تشہد بیٹھ کر نماز کا اختتام کر دیا جائے ۔لیکن ہمارے بھائیوں کو شائد اِن صحیح احادیث سے ثابت شدہ طریقوں کی بجائے دوسرے طریقوں کا علم ہے گو انہیں خود بھی معلوم نہ ہو کہ اِن کا