کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 56
کی ہدایات ہیں یعنی حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ انکو لیکر چلے اور کہا کہ اس کا ثبوت دو، کوئی گواہ پیش کرو ورنہ سزا دونگاتو صحابی رضی اللہ عنہ نے دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی گواہیاں دلوائیں تب جاکرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطمینان ہوا اور انہوں نے بھی اس مسئلہ کو تسلیم کرلیا۔(صحیح بخاری) لیکن آج اگر کسی بات یا عمل کا ثبوت علماء سے طلب کیا جائے تو گالیاں سننے کو ملتی ہیں اور گستاخ و بے ادب ہونے کا سرٹیفیکیٹ مفت میں ملتا ہے ۔ یہی وجہہے کہ آج امتِ مسلمہ میں اسقدر تفرقے بازی ہے ۔ دینی مواد بالخصوص احادیث میں تحریف اور ضعیف احادیث کا اضافہ ممکن ہوا۔ علماء کی ایک دوسرے سے نہیں بنتی اور علمائے کرام صحیح انداز میں کوئی بھی اسلامی بلاک کا نہیں بن سکاجبکہ دشمن یہود و نصاریٰ آج بھی مسلمانوں کو من حیث القوم ایک جان کر انکے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ انکی عیسائی و یہودی مشنریاں کام کر رہی ہیں اور وہ لوگوں کو لالچ اور طاقت و شباب کے بل بوتے پر اپنے مذہب پر لانے کی انتھک کوششیں کر رہے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں بھی بڑی ہوشیاری سے دین پر کاربند رہنا ہے ۔ اﷲ نے فرمایا ہے : { فَبِاَيِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ ہٗ یُوْمِنُوْنَ } (سورۃ المرسلات: ۵۰) ’’ اب قرآن کے بعد کس چیز پر ایمان لائو گے ۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَاتَمَسَّکْتُمْْ بِھِماَ کِتَابُ اللّٰہ وَسُنَّتِی)) (مستدرک حاکم،مُوطا امام مالک) ’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ ے جارہا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے پکڑے رہوگے کبھی گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہیں : اﷲ کی کتاب اور میری سنت۔‘‘ اگر تبلیغی جماعت والے اب بھی سچائی کو تسلیم نہ کریں ا ور جو خرافات نصاب میں موجود ہیں انکو نکالنے میں دیر کریں اور امت کو اسی طرح گمراہ کرنے پر تلے رہیں تو ان کو جان