کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 24
میں 2000 رکعتیں پڑھ سکتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ تم معراج کو مانتے ہو؟ اگر مانتے ہو تو اسے بھی ماننا ہوگا۔ ان پر اﷲ رحم کرے ،مسئلے کو کہاں سے کہاں لے گئے ۔ اگر ان کے پاس جواب ہوتا تو قرآن و حدیث کی روشنی میں دلیل کیساتھ بتاتے اور میں بھی ان کی بات کو مان لیتا۔ اس کے باوجود حملہ یہ کہ تمہارا دماغ ہے ہی کتنا، اور ایسی چیزوں کو سمجھنے کے لیے دماغ چاہیئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا تو ایک حافظ ، قاری اور مقرر ہیں ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ معراج کا واقعہ تو اﷲ نے قرآن میں اچھی طرح صا ف طور پر بیان کردیا ہے ۔ سورۃ کا نام الاسراء ہے یا بنی اسرائیل(سورۃ نمبر17) پہلی ہی آیت میں سارا واقعہ موجود ہے ، جس کا ماننا میرے لیے ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا جزوِ ایمان ہے ۔ لیکن مولانا نے اپنے ایک بزرگ کے ایک فعل کو جنہوں نے ایک رات میں 2000 رکعتیں پڑھیں، ثابت کرنے کے لیے معراج اور صاحبِ معراج سے جوڑ دیا ہے حالانکہ یہ بات سراسر قرآن و حدیث کے خلاف ہے بلکہ یہ اگر حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟ اسی طرح جب رفع الیدین اور آمین بالجہر کی بات نکلی تو اسکے بارے میں بے شمار صحیح احادیث ملنے کے باوجود بھی دیوار پر بیٹھنے والا جواب دے دیا کہ کر بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی، لیکن چھوڑیں کیو ں؟ اس بات کی دلیل نہیں دی۔ اس طرح سے یہ ساری امت اسلامیہ کو گمراہ کرتے آرہے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ اﷲ انکو نیکی اور ہدایت کی توفیق دے دے آمین۔ ایک حافظ ہونے کے ناطے ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ ایک دن میں قرآن ختم کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنے مدرسہ میں صحیح بخاری پڑھارہے ہیں اور صحیح احادیث کا علم بھی اﷲ نے انہیں دے رکھا ہے ۔ اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کیا ہے ؟اس سے بھی واقف ہونگے ۔ لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو مسئلہ تقلید سوار ہو جاتا ہے حالانکہ قرآن کو کتنے دن میں ختم کرنا ہے اس کا حل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے اور وقت مقرر فرمادیا ہے جس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے ۔حدیث پیش خدمت ہے :