کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 22
حصّہ اوّل: تلاشِ حق کا سفر آغازِ سفراور علمائِ احناف سے میرے ذاتی تجربات دنیا کا وہ بہترین قطعہ جو اﷲ تعا لیٰ، اسکے انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کو بہت پسند ہے جہاں پر اسکا گھر موجود ہے ۔ جس حصّہ پر اﷲ پا ک نے نبیوں اور پیغمبروں علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ اس سرزمین پر 25 برس زندگی گزارنے ، حج و عمرے کرنے ، علماء دین سے تبادلۂ خیال کرنے اور بکثرت کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد جب اپنے شہر پہنچا اور وہاں پر مسلمان بھائیوں کے عقائد کا جائزہ لیا تو اتنا افسوس ہوا جو بیان سے باہر ہے ۔ مشرکوں اور ہندؤں کے درمیان زندگیاں گزار تے ہوئے ہم مسلمانوں کے عقیدوں میں اتنی دراڑیں پڑی ہوئی ہیں کہ ہم مسلمان کم اور مشرک زیادہ نظر آتے ہیں ۔ اسلام کا یہی عقیدہ کافروں کو آسانی سے سمجھا سکتے ہیں لیکن اسلام کے دعوے دار وراثت میں مسلمان بنے ہوئے لوگوں کو یہی عقیدہ عین قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھانا لوہے کے چنے چبانے کے برابر ہے ۔ بنگلور کی چھٹی میں پہلا جمعہ ایک مسجد میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ خطبہ کے دوران امام صاحب نے وہ حدیثیں بیان کیں جن سے انکی ہی کتاب ٹکرا رہی تھی۔ میں نے ان سے صرف حدیثوں پر نظر ثانی کرنے کو کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ’ ’ تمہارا مسلک الگ اور ہمارا الگ۔‘‘ میں نے ان سے مسلک کی بات نہیں کی تھی۔ انہوں نے مسلک کو بیچ میں لا کھڑا کیا۔ ایک اورمسجد میں نماز کے بعد امام صاحب سے اجازت چاہی کہ میرا ایک سوال ہے تو انہوں نے سوال سننے سے پہلے ہی جواب دیا کہ’ ’ ہمیں قرآن نہیں آتا، ہمیں حدیثیں معلوم نہیں ،ہمیں صرف ہمارے امام نے جتنا بتا یا ہے صرف اتنا ہی معلوم ہے ۔‘‘ یہ تھامسجد کے امام کا جواب ! غور کریں ایسے اماموں کے مقتدیوں کا کیا حشر ہوگا؟ اﷲ انہیں ہدایت دے تاکہ یہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوں اور اپنی آخرت کے بارے میں سوچیں، جو ہر مسلمان کی ابدی زندگی ہے ۔