کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 18
اس مرتبہ میں چھٹی میں بنگلور آیا تو میرے ساتھ کچھ عجیب و غریب تجربے ہوئے جن کا ذکر میں نے مختصراً یہاں کیا ہے جسے پڑھ کر آپ کو پتہ چل جائیگا کہ ہم کہاں کھڑے ہوئے ہیں اور ہمارا حشر کیا ہوگا؟فیصلہ آپکے ہاتھ میں رہاہے ۔ ع
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
’’تلاشِ حق کا سفر‘‘ میرا پہلا خط تھا جو میں نے اپنی نا کام کو ششوں کے بعد اپنے بھائیوں کے نام لکھا تھا۔میں حق اور صحیح دین سیکھنے کی غرض سے در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا جبکہ میرے ہی رشتہ دار مفّسرِقرآن، شیخ الحدیث مولانا حافظ اکبر شریف صاحب ندوی کو ہی ایک خط لکھا تھا جس کا عنوان میں نے ’’تلاش ِ حق کا سفر ‘‘ رکھالیکن اُنکی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔
حافظ اکبر شریف صاحب جو تبلیغی جماعت کی مانی ہوئی ہستی ہیں اُن سے اپنے اشکالات دور کرانے کی غرض سے گزارش کرتا رہا لیکن اُن کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ پہلی چھٹی ایسے ہی گزرگئی ۔
جب دوسری مرتبہ چھٹی گیا اور اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں سے نماز کی ادائیگی اور دوسرے دینی اُمور پر بات ہوتی تو وہ ہمیشہ اپنی لا علمی کا اظہار کرتے اور کہتے کہ ہمیں تو اسی طرح کی تعلیم دی گئی ہے ۔اُن ہی بھائیوں نے مولانا پر دبا ؤڈالاتو انہوں نے اپنے مدرسہ میں ملنے کی اجازت دے دی۔وہ مدرسہ ہمارے گھروں سے بہت دور ہے ،جہاں میرے علاوہ جن بھائیوں اور اُن کے بچوں کو اشکالات تھے وہ شرکت نہیں کرسکتے تھے (خیر یہ اُن کی تبلیغ کا نرالا انداز ہے کہ گھر والوں ، رشتہ داروںاوراپنے محلے والوں کو چھوڑ کر دنیا بھر کے دوسرے علاقوں میں جاکر تبلیغ کرتے پھرتے ہیں ۔اِ ن کا یہ عمل بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت سے ٹکراتا ہے )
مولانا سے گزارش کی کہ جہاں پر ہم رہ رہے ہیں وہاں تشریف لائیں تو اُنہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جن کو غرض ہے وہ آجائیں گے اگر تم کو کچھ پوچھنا ہے تو تم مدرسہ پر آجاؤ۔میں نے اُن کی ضد پوری کرتے ہوئے اُن کے مدرسہ پر ہی جا کر ملاقات کی۔یہ رویہّ صرف مولانا