کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 115
میں پانی کا پیالہ اور بائیں ہاتھ میں آگ کا انگارہ لیا اور فرمایا: ’’ یہ جنت ہے اور یہ جہنم ہے ، اس جنت کو جہنم پر انڈیلتی ہوں تاکہ نہ رہے جنت نہ رہے جہنم اور لوگ خالص اﷲکی عبادت کریں۔‘‘ {إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّـا إِلَیْْہِ رَاجِعُوْنَ} صوفیاء کرام، وحدت الوجود اور حلول کے قائل ہونے کی وجہ سے یہ باور کرواتے نظر آتے ہیں کہ وہ گویا (نعوذباﷲ)خدائی اختیارات رکھتے ہیں ، اس لیے زندوں کو مارسکتے ہیں ، مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں ۔ ہوا میں اڑ سکتے ہیں ، قسمتیں بدل سکتے ہیں ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: (۱) ’’ ایک دفعہ پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی ؒنے مرغی کا سالن کھاکر ہڈیا ںایک طرف رکھ دیں ، ان ہڈیوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : ’’اﷲکے حکم سے زندہ ہوجائو۔‘‘ تو وہ مرغی زندہ ہوگئی۔ (سیرت غوث صفحہ ۱۹۱) ‘‘ آج کے دور میں لوگ خواہ مخواہ کروڑوں ڈالر خرچ کرکے ڈائنا سور کی ہڈیوں پر تحقیق کررہے ہیں اگر اِنکو بتادیا جائے کہ مسلمانوں میں ایسے اولیا ء بھی ہیں تو یقینا یہ دنیا ہمارے بزرگوں سے مستفید ہوسکتی ہے ۔ اور ڈائناسور کو ہی زندہ کرواکے اِسکی تاریخی حیثیت جانی جاسکتی ہے ۔ تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ یقینا لوگ ڈائنا سور کو چھوڑ کر ہمارے اولیاء کرام کی تلاش شروع کردیں گے ۔ (۲) ’’ایک گویئے کی قبر پر پیرانِ پیر نے کہا: ’’اﷲکے حکم سے اُٹھ جائو۔‘‘ ’’قبر پھٹی اور مردہ گاتا ہوا نکل آیا‘‘ (تفریح الخاطر صفحہ ۱۹) واہ !پیر صاحب نے زندہ بھی کیا توایک کنجر اور میراثی کو تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ’’دین کی خدمت‘‘ کرسکے ۔ (۳) ’’خواجہ ابو اسحاق چشتی جب سفر کا ارادہ فرماتے تو دو سو آدمیوں کے ساتھ آنکھ بند