کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 114
’’مسلمانو! آگاہ رہو!میں قرآن دیا گیا ہوں اور اس کے ساتھ اُسی درجے کی ایک اور چیز (یعنی حدیث) بھی دیا گیا ہوں ‘‘ ۔ (ابودائود) اِن ہی وجوہات کی بنا پر تمام آئمہ کرام نے اپنے اقوال اورآ راء کو ترک کرکے سنت پر عمل کرنے کا حُکم دیا ہے ۔ گویا اطاعتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان لازم مُلزوم ہیں ۔ اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں ۔ عقائد اور اعمال میں تمام تربگاڑ کتاب و سنت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنا تمام باطل عقائد اور اعمال سے محفوظ رہنے کا واحد یقینی راستہ ہے ۔جو حضرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر تاکیدی سنت کو فروعی مسئلہ سمجھکرمتعلقہ حدیثیںٹھکراتے آرہے ہیں اُنکو چاہیئے کہ اپنے ایمان کی خیر منائیںاور اوپر لکھی ہوئی حدیثوں کی روشنی میں اپنا ٹھکانہ بھی منتخب کرلیں۔ عقیدۂ توحید اور دیوبندیت؟ ’’انسان کا اپنا کوئی ارادہ ہے نہ اختیار ‘‘ اس نظرئیے نے اہلِ تصوّف کے نزدیک نیکی اور بُرائی حلال اور حرام ، اطاعت اور نافرمانی ، ثواب وعذاب اورجزاء و سزا کا تصور ہی ختم کردیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثر صوفیاء حضرات نے اپنی تحریروں میں جنّت اور دوزخ کا تمسخر اور مذاق اُڑایا ہے ۔حضرت نظام الدین اولیاء اپنے ملفوظات’’ فوائد الفؤاد ‘‘ میں فرماتے ہیں : قیامت کے روز حضرت معروف کرخی کو حکم ہوگا بہشت میں چلو وہ کہیں گے :’’میں نہیں جانتا۔ میں نے تیری بہشت کے لیے عبادت نہیں کی تھی‘‘ ۔چنانچہ فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ انہیں نور کی زنجیروں میں جکڑ کر کھینچتے کھینچتے بہشت میں لے جائو ۔(تعجب ہے کہ جنت میں بھی زنجیریں؟) حضرت رابعہ بصری ؒکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک روز دائیں ہاتھ