کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 111
فرمان ہیں ،یہ لوگ نا فرمان ہیں ۔‘‘(مسلم) یہاں اطاعت کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے لیے ہم سورۂ نسا ء کی آیت نمبر ۶۵ کو دوبارہ پیش کرکے اِس کاسبب و شانِ نزول بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں ۔لہٰذارشادِ ربّانی ہے : { فَلَا وَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فَیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُ وْافِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} ’’(اے نبی! ) آپ کے رب کی قسم !لوگ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔پھر جو فیصلہ آپ کریں اُس پر اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سرِ تسلیم خم کردیں ۔‘‘ اِس آیت کاسبب و شانِ نزول یہ بیان کیا جاتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا کسی سے کھیت کو سیراب کرنے والے پانی پر جھگڑا ہوگیا،فیصلہ کے لیے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے ۔تمام واقعہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ دیا وہ حضرتِ زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں تھا۔اِس پر دوسراشخص بول اُٹھا کہ یہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ جان بوجھ کر(انصاف کے تقاضوں کے خلاف) اُنکے حق میں دیا ہے ۔لہٰذا اِس پر اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی: لہٰذا آج کے اُن علماء دین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو دیدہ دلیری سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان کو تقلید کے جھنڈے تلے دفن کرتے ہوئے آگے نکلے چلے جارہے ہیں ،نہ آخرت کی فکر ہے اور نہ اللہ کو منہ دکھا نے کی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعت کرنے والوں کے بارے میں کیا خوشخبری دی ہے ؟ ارشادفرمایا: (( مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃِ)) (رواہ البخاری) ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا۔‘‘ یاد رہے کہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے فرض