کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 11
کی تو مسلمانوں کو ایک نئی قوت و حمایت ملی، جس کے بعد مسلمانوں نے مدینہ میں ایک اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی، مسلمانوں کی یہ کامیابی اور ان کی روز افزوں ترقی و مقبولیت دیکھ کر مدینہ کے یہودی پہلے تو اندرونی غیض وغضب کا شکار ہوئے اس کے بعد دھیرے دھیرے ان کے دلوں کا حسد کھل کر سامنے آیا، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو ذہنی ٹار چر کرنا، ان کا استہزاء کرنا اور ان کی بڑھتی ہوئی شان و شوکت پر طنزیہ جملے کسنا ایک عام بات تھی، یہود کے دو بڑے سردار کعب بن اشرف اور حُییّ بن اخطب نے مکہ کا سفر کرکے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی خاطر پیغمبرِ اسلام نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا مجوزہ پلان مشرکین مکہ کے سامنے رکھا، مشرکین نے موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے یہود کے دونوں سرداروں سے یہ سوال کیا کہ آپ لوگ تو اہلِ کتاب ہیں ، اﷲنے آپ کو حق وباطل کی تمیز کی صلاحیت دی ہے ، معرفتِ حق کا ملکہ عطا کیا ہے ، ذرا ہمیں بتایئے کہ ہم حق پر ہیں یا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ؟ انہوں نے پوچھا :تم ذرا اپنے بارے میں ہمیں کچھ بتائو اور محمد کے بارے میں بھی بتائو، تاکہ ہم دونوں کے عقائد ونظریات جان کر یہ فیصلہ کرسکیں کہ تم دونوں میں سے برحق کون ہے ؟ مشرکین نے جواب دیا: محمد ! جس نے ہمارے رشتے ناطوں کو توڑ دیا، ہمارے بتوں کو گالی دی، جبکہ ہم تو ڈھیرسارے جانور ذبح کرتے ہیں ، حاجیوں کو کھانا کھلاتے ہیں ، انہیں پانی پلاتے ہیں ، غلام آزاد کرتے ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ۔
جب مشرکین نے اس انداز میں اپنا تعارف کرایا اور مسلمانوں کا تعارف یہ کہہ کر کرایا کہ ان کے پیروکار تو چور اچکے لوگ ہیں ، وہ تو لوگوں میں پھوٹ ڈالتے ہیں تو یہود نے کہا: تم بہتر ہو اور تم ہی صحیح راستہ پر ہو۔(اعانتہ المستفیدشرح کتاب التوحید لفضیلۃ الشیخ ڈاکٹرصالح الفوزان: ۱؍۳۲۵-۳۲۶)
چونکہ ہجرتِ مدینہ کے بعد ایک اسلامی مملکت کی بنیاد پڑی اور مسلمان ایک بڑی سلطنت کے مالک ٹھہرے ، مسلمانوں کی یہ روزافزوں ترقی دیکھ کر یہود ونصاریٰ جل بھن اٹھے اور مسلمانوں