کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 106
صرف اتنا ہی نہیں علماء احناف ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں ۔اپنے ہر خطبے میں اور ہر محفل میں کہ ہم دنیا کے کسی بھی اہل ِ حدیث سے مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور یہی بات اب شاہ ولی اللہ کے مدرسہ میں بھی ہوئی۔مولانا کلیم اللہ صاحب امام جامع مسجد نیل سندر نے سینہ ٹھوک کر کہا کہ میں اکیلا سارے ہندوستان کے علماء اہلِ حدیث کے لیے کافی ہوں۔اگر مجھ سے مناظرہ کرنا چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں۔اُسی وقت میں نے اُن کے اِس چیلنج کو قبول کرلیا تھاجو ریکارڈ بھی ہو چکا ہے لیکن اُس کے بعد اُن سے یا اُن کی طرف سے کوئی جواب بھی نہیں ملا۔میں لگاتار پیغام بھیجتا رہا کہ اگر وہ تیار ہوگئے تو ایسی صورت میں کہیں نہ کہیں اِن عالموں کو اکٹھا کیا جائے اور ایک علمی بحث رکھی جائے جس سے دودھ کادودھ اورپانی کا پانی ہوجائے لیکن اِن علماء کی یہ پرانی چال ہے ۔مولانا سلمان ندوی صاحب جب سعودی عرب کے شہرالجبیل میں آئے ہوئے تھے تو اُسی وقت وہاں کے شاہبندر بھٹکلی صاحبان نے اپنے مخلصانہ انداز میں اُن کو اور جبیل ہی میں آئے ہوئے ایک اہل ِ حدیث عالم مولانا معراج ربانی صاحب کو کھانے پر بلایاتو ندوی صاحب نے ان کے ساتھ کھانے کے ٹیبل پر آنے سے انکار کردیا۔ اس سے صاف ظاہرہوجاتا ہے کہ یہ لوگ مناظرے کے لیے کب تیار ہونگے ؟ اگر اِن عالموں میں سچائی ہے اور وہ اُمت کویکجا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اِن سب کو ایک پلاٹ فارم پر آنا ہوگا۔یہ میرا خط جو بھی پڑے اور کوئی صاحب بھی احناف کے کسی عالم کو مناظرے کے لیے تیار کر لیں تو مجھ سے رابطہ کریں،اِن شآء اللہ میں اس کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں اور اہل ِ حدیث عالم کو لانے کا وعدہ بھی کرتا ہوں۔