کتاب: تلاش حق کا سفر - صفحہ 105
مسجد اور ہمارے ہی شہر کی بہت ساری مسجدیں جیسے ایک مسجد جو اِن کی مسجد کی بغل میں ہے وہاں پر بھی انہی کے ایک زبردست واعظ مولانا حنیف افسر صاحب خطیب ہیں جن کے دو خطبے سننے کا اتفاق ہوا تھا،اُس وقت انھوں نے صرف دو ہی خطبے دیئے تھے ۔میں نے جب یہ حوالہ دیا تو کہنے لگے کہ ہم حنیف صاحب کو نہیں مانتے ،اگر وہ دو خطبے دے رہے ہیں تو کیوں دے رہے ہیں اُن سے ہی پوچھ لیں۔جب اُن کے پاس کوئی دلیل وثبوت نہیں ہوتا تو اِس طرح سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دورانِ گفتگو وہ خود چند لمحات کے بعد کوئی نہ کوئی مسئلہ اُٹھالیتے تھے تاکہ وہاں موجود لوگوں کو گمراہ کرسکیںاور انھیں اُلجھا کر رکھ دیں ۔اپنے آپ انہوں نے سینے پر ہاتھ باندھنے کا مسئلہ چھیڑدیا اور بعد میں صف بندی کے بارے میں جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں تاکید کیا کرتے تھے اور جب تک صف سیدھی نہیں ہوجاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے نہیں کھڑے ہوتے تھے ۔ ایسے تاکیدی عمل کا وہاں جمع ہو ئے اماموں اور خطیبوں نے ایسا بے ہودہ مذاق اُڑایا کہ میرا دل کانپ اُٹھالیکن وہ لوگ بدستور اِس سنّت کا مذاق اُڑاتے رہے اور بچوں جیسی حرکتیں کر کے دکھا تے رہے ،نہ اُن کو اللہ کا خوف تھا اورنہ آخرت کی فکر،پتہ نہیں وہ کیا منہ لیکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جائیں گے۔ علمائے دیوبند واحناف کا آج کل ایک اہم مشغلہ ہے ،اہلِ حدیثوں کوبھلابُرا کہنا اور اُن پر بے جا الزامات لگانا،صرف اس غرض سے کہ سامنے بیٹھے ہوئے بھولے بھالے مسلمانوں کو متاثر کرکے اُن کو اپنے چُنگل میں پھنسا کر رکھ سکیں لیکن ان کی لاعلمی کا کیاکہنا۔ا نہیں کے بہت بڑے بزرگ وپیرانِ پیرشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ص۱۳۲ پر لکھتے ہیں کہ’’اہلِ بدعت کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہلِ اثر (یعنی اہلِ حدیث) کے حق میں طعن وتشنیع کرتے ہیں اور اہلِ سنّت کا ایک ہی نام ہے ،اصحاب الحدیث یعنی اہلِ حدیث۔‘‘