کتاب: طلاق کے مسائل - صفحہ 9
سر انجام دیا ۔‘‘ابلیس کہتا ہے ’’تو نے کچھ بھی نہیں کیا ۔‘‘پھر دوسرا آتا ہے وہ کہتا ہے ’’میں فلاں فلاں مرد اور عورت کے پیچھے پڑا رہا حتی کہ دونوں کے درمیان علیحدگی کروا کے چھوڑی ۔‘‘ابلیس اسے اپنے پاس تخت پر بٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے ’’تو نے خوب کام کیا ۔‘‘(مسلم )ان ابلیسی کارروائیوں کے نتیجہ میں بعض اوقات فتنے یوں سر اٹھاتے ہیں کہ ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘‘کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے انسان کی ساری کی ساری ذہانت اور فطانت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا انسان کیا کرے کیا نہ کرے پیار اور محبت کے نازک آبگینے میں بال آجاتاہے جذبات مجروح ہونے لگتے ہیں خلوص اور اعتماد کا رشتہ مضمحل ہونے لگتا ہے عہد وفا بے وفائیوں میں اور خوش فہمیاں ،غلط فہمیوں میں بدلنے لگتی ہیں ایسے حالات میں بھی اسلام حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ خاندان کا اتحاد اور یکجہتی کسی نہ کسی طرح برقرار رہے چنانچہ حکم یہ ہے کہ اگر کسی مرد کی بیوی نشوز یعنی بے رخی ،سرکشی یا نافرمانی کا طرز عمل اختیار کرے تو مرد کو فورًا طلاق کا فیصلہ نہیںکرنا چاہئے بلکہ پہلے مرحلے میں بیوی کو پیار اور محبت سے سمجھانا چاہئے اگر اس میں ناکامی ہو تو دوسرے مرحلے میں تنبیہ کے لئے گھر کے اندر اس کا بستر الگ کر دینا چاہئے اگر اس مرحلے میں بھی عورت اپنا طرز عمل نہ بدلے تو تیسرے مرحلے میں اسے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ہلکی مار مارنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساء ،آیت نمبر 34 )اسی طرح اگر زیادتی اور سرکشی (نشوز )مرد کی طرف سے ہو تب بھی حکم یہ ہے کہ عورت کو فورًا خلع کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ صبر اور تحمل اور حکمت و دانائی کے ساتھ شوہر کی بے رخی اور سرکشی کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور پھر حتی الامکان ان اسباب کی تلافی کرکے شوہر کا دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہئے اپنے گھر کی سلامتی کی خاطر عورت کو اگر اپنے حقوق میں کچھ کمی بھی کرنی پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساء ،آیت نمبر128) میاں بیوی باہمی اختلافات ختم کرنے کی ساری تدبیریں کر گزریں اور پھر بھی دونوں کے درمیان وفا کا رشتہ بحال نہ ہو سکے تب بھی طلاق دینے سے پہلے ایک اور راستہ بتایا گیا ہے وہ یہ کہ شوہر کے خاندان میں سے ایک سمجھ دار ،نیک اور منصف مزاج آدمی کا انتخاب کیا جائے اسی طرح بیوی کے خاندان میں سے ایک سمجھ دار ،نیک اور منصف مزاج آدمی کا انتخاب کیا جائے وہ دونوں سر جوڑ کر بیٹھیں اور فریقین کے درمیان اصلاح کے لئے اپنی سی کوشش کر دیکھیں(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساء ،آیت نمبر35)اگر یہ کوشش بھی ناکام ثابت ہو تو پھر اسلام اس تنبیہہ کے ساتھ فریقین کو ایک دوسرے سے الگ ہونے کی اجازت دیتا ہے کہ بلاوجہ طلاق دینے والا مرد بہت بڑے گناہ