کتاب: طلاق کے مسائل - صفحہ 25
حلالہ جائز ہے تو پھر اہل تشیع میں رائج متعہ کیوں حرام ہے۔ دونوں صورتوں میں کچھ معاوضہ طے کرکے محدود اور معین وقت کے لئے نکاح کیا جاتا ہے اس کے بعد فریقین میں علیحدگی طے شدہ امر ہوتا ہے دونوں صورتوں میں عملًا آخر فرق ہی کیا ہے۔ کیا شراب کا نام دودھ رکھنے سے شراب حلال ہوجاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں لوگوں کو یک بارگی تین طلاقیں دینے کے جرم سے روکنے کے لئے نہ صرف یک بارگی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا قانون نافذ فرمایا بلکہ اس کے ساتھ حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے کے لئے سنگسار کی سزا کا قانون بھی نافذ فرما دیا ان دونوں قوانین کا بیک وقت نفاذ لوگوں کی جلد بازی کا موثر ترین سدباب تھا ،تین طلاقیں دینے والا ایک طرف تو اپنی جلد بازی کی وجہ سے زندگی بھر ندامت کے آنسو بہاتارہتااور دوسری طرف حلالہ جیسے ملعون فعل کا تصور بھی اس کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی ہوتا ۔یک بارگی تین طلاق کے قبیح جرم کو ختم کرنے کے لئے اس سے زیادہ سخت اور کڑی سزا ممکن ہی نہ تھی۔ ہمیں ان حضرات کی جسارت پر بڑا تعجب ہوتا ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پہلے قانون کے حوالے سے یک بارگی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا فتوی تو صادر فرمادیتے ہیں لیکن دوسرے قانون (یعنی حلالہ کے فاعل کو سنگسار کرنے کی سزا )نہ صرف چھپاتے ہیں بلکہ الٹا اس حرام اور ملعون کام کی لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں۔ حلالہ کا ایک بہت ہی افسوسناک اور المناک پہلو یہ ہے کہ تین طلاقیں دینے کا جرم تو مرد کرتا ہے لیکن اس کی سزا عورت کو بھگتنی پڑتی ہے۔ اولاً کرے کوئی اور بھرے کوئی کا اندھا قانون نفسہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے ۔قرآن مجید کا واضح ارشاد مبارک ہے لاَ تَذِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ’’یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔‘‘ (سورہ فاطر ،آیت نمبر 18) ثانیًا مرد کے اس احمقانہ جرم کی جو سزا عورت کو بھگتنی پڑتی ہے وہ سزا بھی ایسی ہے جسے نہ توکوئی غیرت مند مرد برداشت کرسکتا ہے نہ کوئی غیرت مند عورت برداشت کرسکتی ہے۔ کیا اس بے غیرتی کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے جو سب سے زیادہ غیرت مند ہے یا اس کا حکم اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے جو اللہ کی مخلوق میں سے سب سے بڑھ کر غیرت مند ہیں؟قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَائِ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ ’’کہو اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیتا کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں۔‘‘(سورہ اعراف ،آیت نمبر 28)