کتاب: طلاق کے مسائل - صفحہ 22
4 بعض اہل علم امام مسلم کی روایت کردہ حدیث کی یہ تاویل پیش کرتے ہیں ’’ابتدائی دور میں لوگوں میں دیانت قریب قریب مفقود تھی اس لئے تین طلاقیں دینے والے کے اس بیان کو تسلیم کر لیا جاتا کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور باقی دو محض تاکید کے طور پر تھیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اب لوگ عجلت میں طلاق دے کر بہانہ کرتے ہیں تو آپرضی اللہ عنہ نے بہانہ قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔‘‘یہ تاویل ہمارے نزدیک بڑے خطرناک مضمرات کی حامل ہے خیر القرون کے بارے میں محض ایک فقہی مسئلے کی خاطر یہ تسلیم کر لینا کہ خیر القرون میں عہد فاروقیرضی اللہ عنہ کے آغازمیں ہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے اندر سے صداقت اور دیانت مفقود ہوگئی تھی یا ہونے لگی تھی بہت سے دوسرے فتنوں کا دروازہ کھول دے گی ہمارے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم پر خیانت کے الزام کا بوجھ اٹھانے سے کہیں زیادہ آسان یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کو من و عن تسلیم کر لیا جائے۔ 5 مذکورہ حدیث شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یک بارگی تین طلاقوں کو تین نافذ کرنے کا جواز لوگوں کی عجلت بتایا ہے نہ کہ لوگوں کی غلط بیانی ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیش کردہ جواز کو چھوڑ کر اپنی طرف سے ایک جواز تصنیف کرکے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر دینا بذات خود دیانت کے خلاف ہے۔ تین طلاقوں کو تین طلاقیں تسلیم کرنے کے بعد اس کے جو قبیح نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ خود اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کا نفاذ ایک تعزیری اقدام تو ہو سکتا ہے مستقل قانون نہیں ہو سکتا ۔ اولًا: طلاق دینے والا اس مہلت سے مکمل طور پر محروم ہوجاتا ہے جو شریعت اسے سوچ بچار کے لئے دینا چاہتی ہے ۔ ثانیًا: طلاق کے بعد فریقین جب پچھتاتے ہیں تو دوبارہ نکاح کی صورت پیدا کرنے کے لئے بے گناہ عورت کو جس طرح حلالہ کے عمل سے گزارنے کے لئے آمادہ کیا جاتا ہے وہ دین اسلام کے مزاج سے قطعًا مطابقت نہیں رکھتا۔ مذکورہ دلائل کی بناء پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نقلی اور عقلی ہر دو اعتبار سے یک بارگی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنا ہی شریعت کا صحیح حکم ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب! یہاں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ قطع نظر اس بحث کے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں تین واقع ہوتی ہیں یا ایک ،بیک وقت