کتاب: طلاق کے مسائل - صفحہ 21
جس کا مطلب یہ ہے کہ فجر کی نماز فجرکے وقت ،ظہر کی ظہر کے وقت ،عصر کی عصر کے وقت ،مغرب کی مغرب کے وقت اور عشاء کی عشاء کے وقت پڑھنی فرض ہے ۔اگر کوئی شخص فجر کے وقت پانچوں نمازیں اکٹھی ادا کرلے تو کیا اس کی نمازیں واقعی ادا ہوجائیں گی۔ فجر کی نماز تو واقعی ادا ہوجائے گی کیونکہ اس کا وقت تھا لیکن ظہر کی نماز جب تک ظہر کے وقت ،عصر کی عصر کے وقت ،مغرب کی مغرب کے وقت اور عشاء کی عشاء کے وقت ادا نہیں کی جائیں گی اس وقت تک ادا نہیں ہوں گی لہٰذا فجر کے وقت اکٹھی نمازیں پڑھنے کے باوجود اپنے اپنے مقررہ وقت پر ساری نمازیں دوبارہ پڑھنی پڑیں گی اسی طرح جو شخص بیک وقت تین طلاقیں اکٹھی دیتا ہے اس کی پہلی طلاق تو ہو جاتی ہے لیکن دوسری یا تیسری طلاق کے لئے جب تک شریعت کا مقرر کردہ ضابطہ پورا نہیں کیا جاتا اس وقت تک وہ نافذ العمل نہیں ہوں گی۔ یہ بات یاد رہے کہ سات اسلامی ممالک جن میں مصر ،سوڈان ،اردن ،مراکش ،عراق،شام اور پاکستان شامل ہیں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنے کا قانون نافذ ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک بیک وقت دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں لیکن ہمیں درج ذیل وجوہات کی بناء پر یہ موقف تسلیم کرنے میں تامل ہے۔ 1 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار فرمایا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد حجت نہیں بن سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: { یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } ’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو،اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو ۔‘‘ (سورہ حجرات ،آیت نمبر1) 2 امام مسلم کی روایت کردہ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق عہد صدیقی رضی اللہ عنہ اور عہد فاروقی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سال کا عرصہ اس مسئلہ پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے اجماع کی حیثیت رکھتاہے۔ 3 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کے بعد بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے پر کبھی بھی امت کا اجماع نہیں رہا ۔صحابہ کرام رضی اللہ علیہ اجمعین،تابعین اور ائمہ کرام میں بھی اس مسئلہ پر اختلاف رہا ہے اور مذکورہ بالا سات اسلامی ممالک میں یک بارگی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے کا قانون تو اس کی بڑی واضح دلیل ہے۔