کتاب: طلاق کے مسائل - صفحہ 12
یہ ہے کہ ساس اپنی بہو سے معرکہ آرائی کے بعد بڑی حسرت سے گویا ہوئیں ’’افسوس میرے تو عمر بھر کے نصیب پھوٹے رہے جب بہو بنی تو ساس اچھی نہ ملی جب ساس بنی تو بہو اچھی نہ ملی ۔‘‘گویا وہی خاتون جو بحیثیت بہو اپنی ساس کی زیادتیوں کا نشانہ بنی جب خود ساس بنی تو اس نے معاشرے کی روایتی ساس کا کردار اپنا لیا۔ ساس اور بہو کے تنازعہ میں سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا مرد کو کرناپڑتا ہے جس کے سامنے ایک طرف والدہ کے شرعی حقوق اور شرعی مقام ہوتا ہے جس کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماؤں کی نافرمانی کو حرام قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا ہے ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے ‘‘ایک حدیث میں باپ کو بھی جنت کا دروازہ قرار دیاگیا ہے ۔‘‘(ابن ماجہ )گویا والدین کو ناراض کرنے یا ان کی نافرمانی کرنے میں جنت سے محروم ہونے کا خطرہ ہے ۔دوسری طرف عنفوان شباب میں پہلی مرتبہ صنف مخالف سے وابستگی اور محبت کا تجربہ نیز ماں ،باپ اور بہن بھائیوں کو شوہر کی خاطر چھوڑ کر آنے والی بیوی کی اجنبی گھر میں نئی نئی آمد کا تصور اور پھر ساس بہو کے اس تنازعہ میں ساس کے ساتھ دیور اور بھاوجوںکے مقابلے میں بہو کے تنہا ہونے کا احساس قدرتی طور پر شوہر کے دل میں بیوی کی حمایت کے جذبات پیدا کر دیتا ہے اس صورت حال میں مرد اپنے والدین کی نہ سنے تو مشکل اور بیوی کی نہ سنے تومشکل ۔معاشرتی زندگی کی یہ دشوار ترین گھاٹی ہے جس سے ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات یہ تنازعہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہی ماں جو بڑے شوق سے بہو لاتی ہے بڑی شدت کے ساتھ بیٹے سے طلاق کا مطالبہ شروع کر دیتی ہے کیا ایسی صورتحال میں مرد کو طلاق دے دینی چاہئے یا صرف نظر کرنا چاہئے۔ اس سوال کے دو ٹوک جواب کا انحصار تو ہر گھر کے حالات اور واقعات پر ہے لیکن ایک بات بہر حال بلا تامل کہی جاسکتی ہے کہ شریعت خاندانی نظام کو بچانے کے لئے قدم قدم پر جس طرح مرد کو طلاق دینے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے اس کے پیش نظر محض ساس اور بہو کے روایتی تنازعہ کی وجہ سے بیوی کو طلاق دینا کسی طرح بھی درست تصور نہیں کیا جاسکتا ۔اپنی اس رائے کے اظہار کے ساتھ ہی ہم خاندان کی اس اہم ترین مثلث یعنی ساس ،بہو اور بیٹے کو شرعی احکام اور نفسیاتی حقائق کے حوالے سے بعض ہدایت دینا چاہتے ہیں جن پر عمل کرنے سے ساس اور بہو کے تنازعہ کو اگر ختم نہیں کیا جاسکتا تو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اولًا : مرد کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جس ماں نے اسے جنم دیا ،اسے پالا پوسااس کی تربیت کی اسے اپنی محبت کے سائے میں بچپن سے لڑکپن ،لڑکپن سے نوجوانی اور نوجوانی سے جوانی تک پہنچایا اس کی شادی کے سہانے سپنے دیکھے اسے اپنی امیدوں کا مرکز بنایا وہ ماں