کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 69
ہی ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ قا بل عمل بن سکتی ہیں فجز اہ اللّٰه خیرا [1] ان شرائط پر مفصل بحث و تنقید شیخ غازی عزیر مبارک پوری حفظہ اللہ نے اپنی کتاب (ضعیف احادیث کی معر فت اور ان کی شر عی حثیت:ص،۲۶۴/۳۱۵)میں کی ہے۔ جب جرح و تعدیل میں تعارض آ جائے ؟ اگر کسی راوی کے متعلق تعارض آ جائے، یعنی کچھ اس کو ثقہ کہہ رہے ہیں اور کچھ ضعیف۔تو ایسی صورت میں ائمہ جر ح و تعدیل کے مر اتب کا لحاظ رکھتے ہو ئے راوی پرراجح مو قف اختیار کریں گے، مثلاًایک راوی کو صرف امام ابن معین، امام بخاری اور امام دارقطنی ثقہ کہیں، لیکن امام ابن حبان، حاکم وغیرہ ضعیف کہیں خواہ ضعیف کہنے والے ان جیسے دس کیوں نہ ہوں تو ان دس کی بات مرجوح ہو گی اور تین ائمہ جو جرح و تعدیل کے متفق ائمہ تھے، ان کی بات ما نی جائے گی، خواہ وہ تین ہی ہوں، کیو نکہ متساہل ائمہ سو مل کر بھی ان اعلی درجے کے ائمہ میں سے تین کے برابر نہیں ہو سکتے۔ یا د رہے کہ ’’جمہوریت‘‘ غلط ہے، خواہ الیکشن میں ہے یا تحقیقِ رواۃ میں۔یہ اصول ہی باطل ہے کہ جس کو زیادہ ثقہ کہیں وہ ثقہ ہے۔ ۵کے مقابلے میں ۶ زیادہ ہیں، لہذا ۶کی بات مانی جائے گی۔ یہ کوئی اصول نہیں ہے۔ حقیقت میں راوی ثقہ ہو اور اس کو اتفاقا اکثر محدثین بھی ثقہ کہہ رہے ہیں اور بعض متا خرین اہل علم نے لکھا بھی ہو کہ ’’وثقہ الجمھور ‘‘ تو اس سے یہ اصول وضع کر لینا کہ ہر جگہ جمہور کی بات مانی جائے گی، درست نہیں ہے۔ مجہول: اگر ثقہ راوی سے صرف روایت کر نے والا ایک راوی ہے تو اسے مجھو ل العین کہتے ہیں اور اگر اس سے دو ثقہ روایت کریں اور اس کی کسی نے تو ثیق نہ کی ہو تو اسے مجھول الحال
[1] (ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت :ص،۲۷۴) .