کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 61
سے راویوں کا ثقہ اور عادل ہو نا تو اس کے نزدیک ثابت ہوتا ہے لیکن باقی تین شرطیں اس میں نہیں پائی جاتیں، لیکن اس پر اعتما د کر نے سے پہلے تمام رواۃ کے حالات خود دیکھ لیے جائیں، تاکہ حقیقی یقین حاصل ہو اور شک و شبہہ ختم ہو جائے، کیو نکہ بعض محدثین صرف اکیلے ابن حبان کی تو ثیق کی وجہ سے بھی ’’ رجالہ ثقات ‘‘ کہہ دیتے ہیں، مثلاً حافظ ہیثمی مجمع الزوائد میں ایسا کرتے ہیں دیکھیے:مقدمہ الجامع الکامل فی الـحدیث الصحیح الشامل للمحدث ضیاء الرحمن اعظمی حفظہ اللّٰه مدرس المسجد النبوی۔ (۷) تخریج میں حدیث کی اصل کتب کی طر ف نسبت کرنا ضروری ہے، ایسی کتب جو مختصر ات ہیں اور ان کی سندیں بھی محذوف ہیں، مثلاً’’ مشکوۃ اور بلوغ المرا م ‘‘ تو تخریج میں ان کی طرف حدیث کی نسبت کرناکوئی فائدہ نہیں دیتا،لیکن اگر اصل کتاب کے حوالے کے ساتھ مشکوۃ یا بلوغ المرام کا بھی نام لکھ دیا جائے پھر درست ہے۔ (۸) دوران تخریج صرف ایک نسخے پر اعتماد کرنادرست نہیں ہے، بلکہ اس کتاب کے جتنے بھی مطبوع یا مخطوط نسخے ہوں، تما م تک رسائی ضروری ہے، کیونکہ بعض دفعہ ایک حدیث ایک مخطوط میں نہیں ہو تی، لیکن وہی حدیث کسی دوسرے مخطوط میں ہو تی ہے مثلاًیہ بات مشہو ر ہے کہ ’’ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ‘‘مو طاامام مالک میں نہیں ہے، حالانکہ یہ حدیث اس موطا میں ہے جو سو ید بن سعید روایت کر تے ہیں۔ کذا قا ل السیو طی [1] اسی طرح سنن الترمذی میں ’’حسن صحیح‘‘نقل کر نے میں نسخوں میں بہت زیادہ اختلاف ہے، جس طرح ابن اصلاح (مقدمہ ابن اصلاح ۲/ص:۳۲،بتحقیق نور الدین العتر )نے کہا ہے اور اس کی کئی علماء محدثین نے وضاحت کی ہے، شیخ احمد شاکر مصری نے اپنی تحقیق سنن
[1] (تنویرالحوالک۱؍۱۰).