کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 47
پورا یقین ہو جائے تب جا کر اس تحقیق کو حتمی شکل دی جائے۔پھر پڑھنے والا کہے گا کہ واقعتا تحقیق کا حق ادا کیا ہے، ورنہ تحقیق مذاق بن جائے گی۔اس موقع پر ایک مثال دینا فائدہ سے خالی نہیں، مشہور حدیث طلب العلم فریضۃ کی تحقیق کرتے وقت محدث البانی رحمہ اللہ نے لکھا کہ میں نے اس کی آٹھ سندیں جمع کی ہیں باقی جمع کررہاہوں۔ [1] شیخ کے شاگرد محدث ابو اسحاق الحوینی حفظہ اللّٰه نے اسی حدیث کی تخریج بائیس صفحات پر مکمل کی اور بیس سے زیادہ سندیں جمع کیں، پھر ہر ہر سند پر بحث کی اور آخر میں خلاصہ نکالا کہ یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔والحمدللہ، گویا انھوں نے تحقیق کا حق ادا کردیا۔ایک طرف یہ تحقیق ہے اور دوسری طرف ایک یا دو سطروں میں تحقیق، اس سے منصف مزاج شخص فن تخریج میں محنت اور مشقت کا اندازہ بخوبی لگا سکتا ہے، کہ یہ کام عجلت میں کرنا چاہیے یا اس کے لئے لمبا وقت درکار ہے اور بڑا صبر آزماکام ہے۔
[1] (الصحیحۃ: ج۱ص۶ ۴۱ ).