کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 46
(ج) تحقیقِ حد یث کر تے وقت حدیث کا شاہد تلا ش کرنا۔اگر ایک سند ضعیف ہے لیکن اس کا صحیح شاہد مل گیا تو وہ حجت ہو گی۔ (د) اگر کسی سند میں کثیر التد لیس راوی عن سے بیان کر رہا ہے تو اس مدلس راوی کے سماع کی صرا حت دیگر کتب سے تلاش کرنی چاہیے، جب مدلس سما ع کی صرا حت کر دے تو اس کی روا یت صحیح ہو جا تی ہے۔ (ر) تحقیق کر تے وقت اپنے سے پہلے محد ثین و محققین کی تحقیق سے بھی فا ئدہ اٹھا نا چا ہیے اور ان کی آرا کو بھی مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ ان کی نظر بہت وسیع تھی اور وہ فن تخریج و تحقیق میں پختہ تھے۔ دلیل کی بنا پر ان سے اختلاف بھی ممکن ہے، لیکن یہ اختلاف کسی شاذ اصول یا تعصب کی وجہ سے نہیں ہونا چاہئے، جس طرح بعض لوگوں نے باور کروایا ہے حالانکہ وہ بذات خود شاذ اصولوں کو آڑ بنا رہے ہوتے ہیں۔ (س) تحقیق کرتے وقت جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے، بلکہ بہت زیادہ محنت کرنی چاہئے خواہ ایک حدیث کی تحقیق میں ایک سال لگ جائے، کیونکہ یہ معاملہ شریعت کا ہے۔ حدیث کو صحیح کہا تو دین کا حصہ شمار ہوگی اور اگر ضعیف کہا تو دین تصور نہیں کی جائے گی۔ وہ علما ء جو تحقیق میں عجلت سے کام لیتے ہیں، منٹوں سیکنڈوں میں تحقیق کرتے ہیں اور پھر اگلے ہی گھنٹے اس سے رجوع کرلیتے ہیں، پھر چند دن بعد کوئی تحقیق سامنے آئی تو اور موقف بنا لیا، گویا اس طرح ایک حدیث کے بارے میں کئی مرتبہ اپنی تحقیق بدلتے نظرآتے ہیں، اس کی وجہ صرف جلد بازی ہے۔ہونا یہ چاہئے کہ ایک حدیث کی تحقیق کرتے وقت تمام طرق جمع کیے جائیں، تمام محدثین کا کلام اس حدیث پر دیکھا جائے، اب تو انٹر نیٹ اور مکتبہ شاملہ وغیرہ بھی عام ہیں، ان سے بھی مدد لی جائے اور اصل سے مراجعت کر لی جائے، پھر موجودہ محققین اہل علم سے مشورہ کیا جائے، پھر استخارہ کیا جائے، جب