کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 38
حدیث کی تخریج کی ہے، ان کی تخریج سے فوائد حاصل کرنا بہت ضروری ہے لیکن چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جو درج ذیل ہیں: ۱: تخریج شدہ کتاب پر کلی اعتماد نہیں کرنا چاہئے، بلکہ جس کا حوالہ دیا گیا ہے اس کو خود ضرور دیکھنا چاہئے، مثلا دورانِ تخریج محدث البانی رحمہ اللّٰه کی کتاب الصحیحۃ سے تخریجِ حدیث کے متعلق کچھ اہم حوالہ جات ملیں، تو ان حوالوں کو پہلے اصل کتب سے دیکھ لیا جائے، پھر لکھا جائے۔ اگر آپ نے حوالے خود اصل مصادر و مراجع سے دیکھے ہیں اور وہ الصحیحۃ میں جمع شدہ تھے تو آپ الصحیحۃکا حوالہ نہ بھی لکھیں تو کوئی حرج نہیں، بلکہ اصل کتابوں کے حوالہ جات ہی کافی ہیں، لیکن اگر آپ خیال کرتے ہیں کہ الصحیحۃ میں کچھ نادر اور اہم فوائد ہیں تو اصل کتب کا حوالہ دے کر آخر میں لکھ دیں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:(الصحیحۃ)تاکہ آپ کی کتاب سے قاری’’ الصحیحۃ‘‘ کے فوائد تک بھی رسائی حاصل کر سکے۔ ۲: اگر آپ کسی وجہ سے اصل کتابوں سے حوالے نہیں دیکھ سکے، تب تخریج میں الصحیحہ سے حوالے لکھ کر آخر میں لکھ دیں،کذا فی الصحیحۃ یا ماخوذ من الصحیحۃ یا بحوالہ الصحیحۃ،تاکہ امانتِ علمی قائم رہے۔یہاں ایک بات بطور تنبیہ عرض ہے کہ ہمارے ایک فاضل دوست نے تفسیر ابن کثیر کی تخریج کی تھی، انھوں نے کئی جگہوں پر بطور فائدہ شیخ البانی رحمہ اللّٰه کی اہم کتب کے حوالے بھی دئیے تھے، تاکہ قاری تفصیل وہاں دیکھ سکے، توتفسیر ابن کثیر پر ایک دوسرے اہل علم کو نظرثانی کے لئے کہا گیا تو اس اہل علم نے شیخ البانی رحمہ اللّٰه کی تمام کتابوں کے ناموں پر قلم پھیر دیا۔ جب ابن کثیر شایع ہوئی تو کئی جگہوں پر ناشر نے شیخ البانی رحمہ اللہ کے نام قائم رکھے، تو نظر ثانی کرنے والے اہل علم نے کتاب دیکھی تو آگ بگولہ ہو گئے کہ شیخ البانی کی کتب کے حوالے کیوں رہنے دئیے ؟؟ یہ انداز غلط ہے اور امت کو کسی تعصب کی وجہ سے علمی