کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 35
۱۰: ہما رے ہا ں عمو ما ً ’’مشکا ٰۃ ‘‘ ’’بلو غ المر ام ‘‘اور ’’ ترغیب و تر ھیب‘‘ وغیر ہ کے حوا لے بھی دیے جا تے ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر کمزوری یہ ہے کہ مثلاً: حدیث تو ’’ المنتقی ‘‘ لا بی البرکا ت ابن تیمیہ میں ہے۔ مگر حوا لہ ’’ نیل الأ وطا ر ‘‘ کا دیا جا تا ہے۔ ۱۱: تخر یج کا معنیٰ یہ ہے کہ حد یث کو کسی ایسی کتا ب کی طرف منسوب کیا جائے جس کے مؤ لف نے اس حد یث کو اپنی سند سے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روا یت کیا ہو اور ساتھ ہی حد یث کا درجہ بھی بیا ن کیا جائے، یعنی کہنا کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف وغیرہ وغیرہ یہ صحیح ہے کہ حدیث پر حکم لگا نا کو ئی اتنا آسا ن کا م نہیں ہے مگر محد ثینِ عظام کا لگا یا ہوا حکم نقل کرنا تو کو ئی مشکل نہیں۔[1] ۱۲: کسی حد یث کو اس کتا ب کی طرف منسو ب کرنا جس میں اس کا نام و نشا ن نہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے جس سے بچنا بہت ضروری ہے، مثلا ً دیکھیں مشھور من گھڑت روایت ’’ فأ عرضوا علی کتا ب اللّٰه‘‘کو اصو ل شا شی کے حا شیہ: نمبر۲،ص۷۶ میں صحیح بخا ری کی طر ف منسوب کیا گیا ہے، اسی طر ح تفتا زانی حنفی نے تلو یح (۲/۹،مصر )میں بھی اس کو بخا ری کی طر ف منسوب کیا ہے، جو سراسر غلط ہے، اسی طر ح مشہو ر منکر اور ضعیف روا یت کہ والد ین کی طر ف ایک دفعہ دیکھنے سے حج مبر ور کا ثو اب ملتا ہے کو ’’ خطبا ت ضیا ء اللہ شاہ بخا ری ‘‘ میں مسلم کی طر ف منسو ب کیا گیا ہے، حالانکہ یہ فحش غلطی ہے۔ معر وف محقق،محدث العصر شیخ عبد الر وف بن عبد الحنا ن بن حکیم اشرف حفظہ اللہ (سندھو،قصور حال مقیم کویت) لکھتے ہیں:’’بعض احادیث ایسی ہیں جنھیں مؤلف( صلاۃ الرسول از
[1] (القول المقبو ل :ص ۱۲).