کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 26
کی صر احت کی ہو۔ یا ان کتب میں یہ حد یث دوسر ے طر ق سے مروی ہو، یا اس کے شوا ہد ہوں جن کی بنا پر یہ حد یث صحیح، حسن یا قوی ہو جا تی ہے۔ اسی لیے بعض محققین نے کہا ہے کہ جب کوئی ایسی حد یث سا منے آ ئے جس کی سند ضعیف ہو تو اس حدیث کے با رے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ حد یث ضعیف ہے، بلکہ کہا جا ئے کہ یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے۔ کیو نکہ ممکن ہے کہ یہ حد یث دوسری سند سے مروی ہو یا اس کے شواہد ہو ں۔ مگر جب تتبع اور بحث کے بعدظن غالب یہ ہو کہ اس حد یث کی دوسری سند، یا شواہد نہیں ہیں تو پھر اس حدیث پر مطلقاً ضعف کا حکم لگا یا جا سکتا ہے [1] اگر ابو داود یا دوسری سنن میں ایک حد یث صحیح سند سے بھی مروی ہو تو اس صورت میں بھی اس کی تخر یج خا لی از فا ئدہ نہ ہو گی۔کیو نکہ ممکن ہے کہ دوسری کتب میں اس حد یث کی دوسر ی سندیں یا اس کے شوا ہد ہوں اور اس صو رت میں فا ئدہ یہ ہو گا کہ اس حدیث کی صحت پر مزید اطمینان ہو جا ئے گا۔[2] کتب ِتخر یج کا ذکر: کتبِ تخر یج بہت زیادہ ہیں، جن سے طا لب علم یا محقق مستغنی نہیں ہو سکتا۔ جب بھی کسی حد یث کی تخریج کرنی ہے تو کتبِ تخریج کی طرف مراجعت ازحدضروری ہے، تاکہ اپنے سے پہلے علماء کی محنت اور تخریج و تحقیق سے بھر پور استفادہ اٹھایا جائے، ان میں سے بعض کتابوں کے نام درج ذیل ہیں: نصب الرایۃ للزیلعی البدرا لمنیر لابن الملقن
[1] (البا عث الحثیث لاحمد شا کر ص:۹۰). [2] (القو ل المقبو ل ص:۲۰۔۲۱).