کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 22
علمِ تخریج سے مدد طلب کرنا: کسی چیز کے رد یا قبول کرنے سے پہلے اس کی جانچ پڑتال کرنا ضروری ہے، یہ تب ہی ممکن ہے جب علم تخریج سے واقفیت ہو گی، ورنہ انسان اصل حقیقت سے نا آشنا ہی رہے گا، بلکہ جو کچھ پڑھے گا، اسے حقیقت خیال کرے گا، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ علم تخر یج کا واضع: اس کو وضع کر نے والا کوئی معین شخص نہیں ہے، اس پر مختلف ادوا ر گز رے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ زما نہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، کیو نکہ صحا بہ کرام نے قران و حدیث کو براہِ راست رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا اور صحا بہ کرام تمام کے تمام ثقہ اور عادل تھے۔ اس وقت تخر یج کا وجو د ہی نہیں تھا،جب بعد میں کتبِ احا دیث لکھی گئیں، تب حدیث کی اصل کتاب کی طرف نسبت کرنا ضروری ہو گیا اور سند کے وجو د سے تخر یج کا وجو د بھی شروع ہوا۔ حکم: علمِ تخر یج کا سیکھنا فرض کفایہ ہے اور ہر اس شخص پر فر ض عین ہے جس کا تعلق حدیث، تفسیر، فقہ، اصو ل یا کسی بھی فن سے ہے، کیو نکہ ہر کوئی حدیث کا محتا ج ہے خواہ وہ تھو ڑا محتا ج ہویا زیا دہ، مثلاً ایک شخص نحوی ہے، اس کو بھی حدیث کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح فقیہ اور مفسر بھی حدیث کا محتاج ہوتا ہے چونکہ حدیث ایسا فن ہے جس کی طر ف ہر اہل علم محتا ج ہو تا ہے، لہذا ایک نحوی کی بھی فن تخر یج اور جر ح وتعدیل میں وسعتِ نظر ہو نی چا ہے، ورنہ وہ نحو میں جو مثالیں پیش کرے گا تو ان میں ضعیف اور موضو ع روا یا ت کو بھی ترویج دے گا۔افسو س کہ آ ج کل علمِ حدیث کی طر ف بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔