کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 17
وخلق کثیر۔ اگر میں کہو ں تو مبالغہ نہیں کہ آج پوری دنیا میں یونیو رسٹیو ں، مدا رس و جا معا ت اور تصنیف و تالیف میں جہا ں بھی تخر یج و تحقیق پر کا م ہو رہا ہے۔اس کی وجہ محدث ِکبیر، شیخ الاسلام، اسد السنہ، فخر المتاخرین، امتِ مسلمہ کے عظیم محسن، محمد ناصر الدین البا نی رحمہ اللہ ہیں، انہوں نے اس فن کی تجدید کی اور لوگوں میں شعور پیدا کیا، بعض حا سدوں نے حسد کیا اور خود بدنا م ہوئے۔میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا کہ جس نے شیخ البا نی سے عداوت کی ہو اور اسے عقل مند لو گو ں نے پسند کیا ہو، البتہ علمی اختلاف ہر عالم دین سے ممکن ہے۔اللہ تعا لیٰ ہر اہلِ علم کو اس فن سے دل چسپی کی تو فیق عطا فر ما ئے۔آمین فائدہ: بندہ ناچیز نے جامعہ رحمانیہ لاہور میں درجہ ثالثہ کی کلاس ہی سے فنِ جرح و تعدیل کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ اللہ تعالی نے مجھے شیخ عبدالرشید راشد فاضل مدینہ یونیورسٹی جیسے مشفق اور راہنمائی کرنے والے استاد محترم عطافرمادیے، پھر عرصہ تین سال محدث العصر امام الجرح و التعدیل شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ، شیخ الاسلام حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ اور محدث العصر حافظ محمد شریف حفظہ اللہ سے علم جرح و تعدیل سیکھنے کا موقع ملا نیز جامعہ رحمانیہ میں درجہ رابعہ ہی سے استاد محترم محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے بھی گہرا تعلق تھا۔ بعض دفعہ شیخ رحمہ اللہ کی خدمت میں مکتبہ حضرو اٹک بھی حاضر ہوا، فون پر تو بہت ہی رابطہ رہا۔اللہ تعالی میرے مشایخ عظام پر رحمتیں نازل فرمائے آمین۔ یہ تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ منہجی اختلاف اگر کسی شیخ سے کیا ہے تو مکمل بحث و تحقیق کے بعد کیا ہے اور مضبوط دلائل و براہین کی بنیاد پر کیاہے۔بالفاظ دیگر راقم نے دونوں گھاٹیوں سے پانی پیا ہے اور جس کو حق سمجھا، اسی کو اپنایا ہے والحمدللہ۔ بطور تنبیہ عرض ہے کہ جو طالب علم ایک ہی شیخ سے رابطہ رکھے اور اسی فن کے ماہر