کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 16
الرایہ‘‘ رکھا، جس کا خلاصہ حافظ ابن حجر نے’’الدرایۃ ‘‘ کے نام سے کیا، علامہ تبر یزی نے ’’مصابیح السنۃ‘‘کی تخر یج کی اور اس پر تیسر ی فصل کا اضافہ بھی کیا، جس کا نام انھو ں نے ’’مشکا ۃ المصابیح ‘‘ رکھا۔ پھر نویں صدی ہجری ہی میں امام ابن الملقن نے ’’الشرح الکبیر للرافعی ‘‘ کی تخریج بنا م ’’ البدر المیز ‘‘کی اور اسی کی تلخیص حافط ابن حجر نے ’’التلخیص الحبیر ‘‘کے نام سے کی۔علامہ عراقی نے’’ احیاء علوم الدین‘‘ کی تخریج بنام ’’المغنی عن حمل الأسفار فی الأسفار ‘‘لکھی، دسویں صدی ہجری میں علامہ سخاوی نے ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کی تخریج بنام ’’البغیۃ بتخریج أحا دیث الغنیۃ‘‘لکھی۔علامہ سیوطی نے ’’الشفا‘‘کی تخریج بنا م ’’مناھل الصفا‘‘ لکھی،گیارھویں صدی ہجری میں ملاعلی قاری نے’’ شرح عقائد نسفیہ ‘‘کی تخریج کی اور علامہ مناوی نے’’ تفسیر بیضاوی‘‘ کی احادیث کی تخریج بنام ’’تحفۃ الراوی فی تخریج احادیث البیضاوی ‘‘لکھی۔ پھر چودھویں صدی ہجری میں شیخ محمد ناصر الدین البانی نے تخریج و تحقیق پر کا م شروع کیا اور اپنی ساری زندگی بس اسی فن کی خدمت میں صرف کر دی۔ اپنی ۱۲۰ کتب میں انھوں نے فنِ تخریج وتحقیق کو زندہ کیا، جن میں سے بعض کتب کئی جلد وں میں بھی ہیں۔اللہ تعا لیٰ اپنے بندے شیخ البا نی رحمہ اللہ سے راضی ہو جا ئے کہ جنھوں نے حدیث کے اہم فن ’’ تخریج و تحقیق ‘‘ کے ذر یعے ہزا رو ں احا دیث کی چھا ن پھٹک کی اور امتِ مسلمہ پر احسا ن عظیم کیا اور بے شما ر ایسے شا گرد تیا ر کیے جو پو ری دنیا میں فنِ تخر یج وتحقیق کو اپنا ئے ہو ئے ہیں، مثلا ً محدث أبو اسحا ق الحو ینی المصری، محدث أبو عبیدہ مشھو ر حسن الا ردنی،محدث علی حسن الحلبی الا ردنی،محد ث نبیل بن منصور البصا رہ،محدث عصام موسی ھادی