کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 112
تدلیس کا الزام ثابت ہے لہذا اس اثر کے ذکر کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں۔کیونکہ یہ میری شرط پر نہیں ہے۔واللہ اعلم۔[1] اس سے معلوم ہوا کہ زہری کا عن سے بیان کرنا محدثین کی شرط پر تو صحیح ہوتا ہے امام دارقطنی، حاکم، بیہقی اور ذہبی،معتمدعلیہ حفاظ حدیث، ائمہ دین کی شرط پر تو صحیح ہے اور یہی صحیح بات ہے۔ !!! علائی نے کہا:قبل الائمۃ قولہ عن(جامع التحصیل ص109)یہی بات سبط العجمی نے اپنی کتاب( التبیین:ص ۸۰)میں کہی ہے۔ متقدمین کے منہج کو ثابت کرنے کے لئے دکتور حاتم العونی کی تحریر پیش کی جاتی ہے، حالانکہ دکتورصاحب نے وہ بحث حسن لغیرہ کے متعلق نہیں کی بلکہ عام بحث کی ہے اورمتاخرین کا منطقیوں سے متاثر ہونا بھی حسن لغیرہ کے متعلق نہیں کہا بلکہ انھوں نے خود ’’المنھج المقترح ‘‘میں متواتر کی بحث کی مثال دے کر بیان کیا ہے نہ کہ حسن لغیرہ کی مثال دی ہے اور وہ خود حسن لغیرہ کے قائل ہیں۔ دکتور حاتم العونی نے کہا: العلماء متفقون علی قبول عنعنۃ الزہری ومنھم ابن حجر نفسہ تمام علماء، محدثین امام زہری کے عن والی روایات کو قبول کرنے پر متفق ہیں اور ان میں ابن حجر خود بھی ہیں۔(التخریج و دراسۃ الا سانید ص77)ہمارے علم کے مطابق حافظ ابن حجر نے کسی بھی حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف قرار نہیں دیا، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر کاانھیں تیسرے طبقے میں شمار کرنا مرجوح قول ہے۔
[1] (الکواکب الدریۃ مسئلہ فاتحہ خلف الامام ص:90).