کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 111
ایک حدیث کو محدثین صحیح کہہ رہے ہیں تو اس کو صحیح مانا جائے گا وہ ہم سے کہیں زیادہ تحقیقِ حدیث کے ماہر تھے۔ ’’انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفۃ من السنن الاربعۃ‘‘ نامی کتاب میں پچاس سے زیادہ احادیث کو صرف اس وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہے کہ ان کی سند میں امام ابن شہاب زہری ہیں اورصیغہ عن سے بیان کر رہے ہیں۔ ایک مقا م پر لکھا گیا: اگرچہ اس کے تمام راوی صحیحین کے راوی ہیں مگر یہ سند زہری رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ ان پر تدلیس کا الزام ثابت ہے لہذا اس اثر کے ذکر کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں، کیونکہ یہ میری شرط پر نہیں ہے۔واللہ اعلم۔[1] جواب:حدیث کی صحت و ضعف کا مدار محدثین کی شروط پر ہے۔اگر کوئی حدیث ان کی شروط پر صحیح ہے تو وہ صحیح سمجھی جائے گی۔ کسی حدیث کا آج کے کسی عالم دین کی اپنی بنائی ہوئی شرط پر اترنا کوئی ضروری نہیں۔محدثین امام زہری کی عن والی حدیث کو صحیح سمجھتے تھے، یعنی زہری کا عنعنہ محدثین کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔اس کا اعتراف بھی ملاحظہ فرمائیں: خلیفہ رابع امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی ظہر وعصر کی نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کا حکم مروی ہے جسے امام دارقطنی، امام حاکم، امام بیہقی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔[2] محدثین کی شرط پر صحیح ہے پر اس کے متعلق کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ اس کے تمام راوی صحیحین کے راوی ہیں مگر یہ سند زہری رحمہ اللہ کے عنعن کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ ان پر
[1] (الکواکب الدریۃ مسئلہ فاتحہ خلف الامام ص:90). [2] (دیکھئے سنن دار قطنی 1322 ح1219،المستدرک 2239ح874،السنن الکبری للبیہقی2168ح196۔195،جزء القراء ت للبیہقی ص92،94).