کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 107
نیز فرماتے ہیں: کسی کا زمانے کے لحاظ سے متقدم ہونا یہ کوئی دلیل نہیں کہ جو ان سے زمناً متاخر ہو اس کی بات صحیح نہیں۔ اعتبار تو دلائل کو ہے نہ کہ شخصیات کو۔ (ایضا 333) نیز کہا: تو کیا آپ ایسے سب رواۃ (جن کی حافظ صاحب نے توثیق فرمائی اور ان کے بارے میں متقدمین میں سے کسی کی توثیق کی تصریح نہیں فرمائی) کے متعلق یہی فرمائیں گے کہ ان کی توثیق مقبول نہیں یہ ان کا اپنا خیال ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس طرح آپ اس جلیل القدر حافظ حدیث اور نقد الرجال میں استقراء تام رکھنے والے کی ساری مساعی جمیلہ پر پانی پھیر دیں گے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ جناب کے اس نہج پر سوچنے کی زد کہاں کہاں تک پہنچ کر رہے گی۔[1] 2۔ فضیلۃ الشیخ ابن ابی العینین فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے: بعض طلبہ جنھوں نے ماہر شیوخ سے بھی نہیں پڑھا، وہ بعض نظری اقوال لے کر اپنے اصول و قواعد بنا رہے ہیں اور وہ کبار علماء سے اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم متقدمین کے پیروکار ہیں اور انھوں نے متاخرین کے منہج کو غلط قرار دیا ہے۔[2] 3۔ متقدمین کی حسن لغیرہ کے متعلق کون سی بحثیں ہیں، جن کے خلاف متاخرین نے اصول وضع کیے ہیں؟! 4۔ متاخرین نے علم متقدمین ہی سے لیا ہے اور وہ انھیں کے انداز سے اصول متعین کرتے ہیں۔ فا ئدہ: با طل روایت کی خواہ جتنی بھی سندیں ہوں وہ با طل ہی رہے گی حسن لغیرہ نہیں بن سکتی، اس کی مثال قصہ غرا نیق ہے، اس روایت کو محدثین ومحققین نے با طل کہا ہے مثلا ًامام الا ئمہ امام ابن
[1] (ایضا 335). [2] (القول الحسن:103).