کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 105
ہمارا نہیں خیال کہ متاخرین اس بات پر اطلاع پا لیں جس پر متاخرین اطلاع نہ پا سکے ہوں، ہاں کبھی کبھار ایسا ہو سکتا ہے۔
نیز ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
أرونی شخصا یحفظ مثل ما یحفظ البخاری، أو أحمد بن حنبل، أو تکون لہ معرفۃ بعلم الرجال مثل یحییٰ بن معین، أو لہ معرفۃ بالعلل مثل علی بن المدینی، والدارقطنی، بل مثل معشار الواحد من ہولاء، ففرق کبیر بین المتقدمین والمتأخرین۔ (أیضا)
مجھے ایک ایسا شخص دکھائیں جو امام بخاری یا امام احمد بن حنبل کی طرح کا حافظہ رکھتا ہو یا اسے امام یحییٰ بن معین کی طرح علم رجال کی معرفت ہو یا اسے امام علی بن مدینی اور امام دار قطنی کی طرح علل حدیث کی معرفت ہو، بلکہ ان کے عشر عشیر کے برابر بھی موجودہ دور میں کوئی نہیں۔ لہٰذا متقدمین اور متاخرین میں بہت فرق ہے۔
اس سے ہر منصف مزاج شخص بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ متقدمین کے علوم وفنون کے اس قدر اعتراف کے باوجودبھی وہ کہتے ہیں کہ حسن لغیرہ کو مطلقاً حجت نہ سمجھنے والا شخص سنتوں کو ٹھکرانے والا ہے۔ تو اب آپ غور کریں:
1۔ کیا علامہ مقبل بن ہادیؒ متقدمین کو سنتوں کا ٹھکرانے والا کہہ رہے ہیں؟
2۔ کیا وہ ایک جگہ متقدمین کو لیتے ہیں (کہ ان کی بات ہی معتبر ہے ) اور دوسری جگہ(حسن لغیرہ کی عدمِ حجیت) ان کو چھوڑ رہے ہیں؟
3۔ علامہ مقبل بن ہادی اپنے شاگرد ابن ابی العینین کی کتاب ’’القول الحسن ‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: