کتاب: تخریج وتحقیق کے اصول وضوابط - صفحہ 103
دیتے ہیں: ’’کلھا ضعیفۃ یا أسانیدھا کلھا معلولۃ‘‘ وغیرہ، ان سے حسن لغیرہ کو حجت نہ سمجھنے والے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ ان راویات میں راوی کی کئی اغلاط ہوتی ہیں۔ جواب: اس حوالے سے امام البانی رقمطراز ہیں:’’ان الشاذ والمنکر مردود، لأنہ خطأ والخطأ لا یتقوی بہ۔‘‘شاذ اور منکر قابلِ ردّ ہے، کیونکہ وہ غلط ہے اور غلط سے تقویت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ نیز فرمایا: ’’ وما ثبت خطأ ہ فلا یعقل أن یقوی بہ روایۃ أخری فی معناہا، فثبت أن الشاذ والمنکر مما لا یعتد بہ ولا یستشہد بہ، بل إن وجودہ وعدمہ سواء۔‘‘ ’’ جس (سند یا متن) کا غلط ہونا ثابت ہوجائے تو یہ معقول نہیں کہ اس کے ہم معنی روایت اسے تقویت پہنچائے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ شاذ اور منکر حدیث کی وہ اقسام ہیں جو کسی قطار وشمار میں نہیں اور نہ انھیں بطورِ شاہد پیش کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کا وجود اور عدمِ وجود دونوں برابر ہیں۔‘‘[1] اسی لیے تو امام احمدؒ نے فرمایا کہ’’ والمنکر أبدا منکر‘‘ کہ منکر روایت ہمیشہ منکر ہی رہتی ہے۔[2] اسی بات کو شیخ طارق بن عوض اللہ نے اپنی کتاب’’ الإرشادات فی تقویۃ الأحادیث بالشواہد والمتابعات ‘‘کے مقدمہ میں بڑے بسط سے بیان کیا ہے۔[3]
[1] (صلاۃ التراویح للألبانی، ص 57). [2] (العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ المروذی، ص: 167، رقم287۔ ومسائل الإمام أحمد روایۃ ابن ہانی، ج:2ص:167، رقم: 1925). [3] (مقالات اثریہ، از محمد خبیب احمد ).